سوال:
مفتی صاحب ! میاں بیوی میں طلاق کے متعلق اختلاف ہو گیا ہے، شوہر کہتا ہے کہ دو دی ہیں، جبکہ بیوی تین کا کہہ رہی ہے۔
براہ کرم وضاحت فرمادیں کہ اب کس کی بات مانی جائے؟
واضح رہے کہ شوہر کا رجحان تین طلاق ایک ہوتی ہے، اس کی طرف ہے۔
جواب: اگر طلاق کے بارے میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جائے، مثلاً بیوی تین طلاقوں کا دعویٰ کرے، اور شوہر دو کا اقرار کرے، تو شرعی حکم یہ ہے کہ بیوی شوہر کے طلاق دینے پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) پیش کرے، اگر بیوی شرعی گواہ پیش کردے، تو طلاق واقع ہو جائے گی، اور اگر بیوی گواہ پیش نہ کرسکے، تو شوہر سے طلاق نہ دینے پر قسم لی جائے گی، اگر اس نے طلاق نہ دینے پر قسم اٹھا لی، تو اس صورت میں فیصلہ شوہر کے حق میں ہوگا، اور قضاءً طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر عورت کو تین دفعہ طلاق دینے کا یقین ہو، تو وہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت نہ دے، اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت، رقم الحدیث: 4466)
عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ۔
رد المحتار: (468/2، ط: مکتبہ رشیدیہ)
و المرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ أو اخبرھا عدل، لایحل لھا تمکینہ و الفتویٰ علی انہ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا بمال او تھرب کما انہ لیس لہ قتلھا اذا حرمت علیہ وکلما ھرب ردتہ بالسحر و فی البزاریۃ عن الاوزجندی انھا ترفع الامر للقاضی، فان حلف و لا بینۃ لھا، فالاثم علیہ۔
الفتاوی التاتارخانیہ: (328/3، ط: ادارۃ القرآن)
ففی کل موضع یصدق الزوج علی نفی النیہ انما یصدق مع الیمین.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی