سوال:
ہم نے ایک ماہ پہلے اپنی لڑکی کی ایک جگہ منگنی کردی تھی، ہمیں بتایا گیا تھا کہ لڑکا اچھا ہے اور کام کاج کرتا ہے، لیکن ایک ماہ بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ تو آوارہ گرد ہے، کوئی کام کاج نہیں کرتا ہے اور ہم سے جھوٹ بولا گیا تھا، سوال یہ ہے کہ کیا ہم منگنی توڑ سکتے ہیں اور یہ وعدہ خلافی تو نہیں ہوگی؟
جواب: صورت مسئولہ میں چونکہ منگنی کرتے وقت آپ کو لڑکے کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ اچھا ہے اور کام کاج کرتا ہے، لیکن بعد میں لڑکا آوارہ اور بے روزگار نکلا اور آپ لوگوں سے جھوٹ بولا گیا تھا، لہذا وعدۂ خلافی آپ لوگوں کی طرف سے نہیں، بلکہ لڑکے والوں کی طرف سے پائی گئی ہے، اس لئے آپ لوگ وہ منگنی توڑ سکتے ہیں اور یہ وعدۂ خلافی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النور، الآیۃ: 32)
وَاَنْكِحُوا الاَيَامٰى مِنكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَّكُونُوْا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِن فَضْلِهٖ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo
سنن الترمذی: (باب ما جاء في علامة المنافق)
عن أبى هريرة ؓ قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: آية المنافق ثلاث إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا اؤتمن خان۔
رد المحتار: (6/3، ط: دار الفکر)
قوله ( وهذا إن ملك المهر والنفقة ) هذا الشرط راجع إلى القسمين أعني الواجب والفرض وزاد في البحر شرطا آخر فيهما وهو عدم خوف الجور أي الظلم قال فإن تعارض خوف الوقوع في الزنا لو لم يتزوج وخوف الجور لو تزوج قدم الثاني فلا افتراض بل يكره أفاده الكمال في الفتح ولعله لأن الجور معصية متعلقة بالعباد والمنع من الزنا من حقوق الله تعالى وحق العبد مقدم عند التعارض لاحتياجه وغنى المولى تعالى اھ ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی