سوال:
مفتی صاحب! ایک خاتون کا انتقال ہوا، ورثاء میں شوہر، ایک بیٹی، والد، سوتیلی والدہ، دو بھائی اور ایک بہن ہیں، اور ترکہ پانچ لاکھ (500000) روپے ہے، براہ کرم ترکہ کو شرعی ورثاء میں تقسیم فرمادیں۔
جواب: مرحومہ کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیدادِ منقولہ و غیر منقولہ کو بارہ (12) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیٹی کو چھ (6)، شوہر کو تین (3) اور والد کو تین (3) حصے ملیں گے۔
اس تقسیم کی رو سے پانچ لاکھ روپوں میں سے بیٹی کو دو لاکھ پچاس ہزار (250000)، شوہر کو ایک لاکھ پچیس ہزار (125000)، اور والد کو ایک لاکھ پچیس ہزار (125000) روپے ملیں گے۔
واضح رہے کہ مرحومہ کی میراث میں سے سوتیلی والدہ اور بہن بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11- 12)
فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ۔۔۔۔الخ
فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ۔۔۔۔الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (774/6، ط: سعید)
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی