عنوان: رفاہی مقاصد کیلئے جمع کی گئی نفلی صدقہ کی رقم کو کاروبار میں لگانے کا شرعی حکم(7699-No)

سوال: السلام علیکم، حضرت ! اگر کسی کاروبار میں چیریٹی کے مال سے 50 فیصد شراکت کی جائے، اور اس کاروبار سے ہونے والی آمدنی کا وہ حصہ جو 50٪ کی مد میں آئیگا, اس ساری رقم کو چیریٹی کے کام میں لگایا جائے، اس سارے عمل کے پیچھے نیت یہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ گھرانوں کی امداد کی جاسکے، تو کیا شرعا اس طرح کرنا جائز ہے؟
تنقیح:
محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ:
1) سوال میں چیریٹی کی رقم سے کیا مراد ہے؟ زکوۃ٬ فطرانہ کی رقم یا دیگر نفلی صدقات و عطیات وغیرہ؟
2) یہ رقم کسی ادارے کی طرف سے وقف ہے یا اسی مقصد کیلئے لوگوں سے جمع کی گئی رقم ہے؟
3) نیز اگر انفرادی طور پر رقم جمع ہوئی ہے تو اس کی کیا شرائط وضوابط طے ہوئے اور خرچ کرنے کے حوالے سے کیا طریقہ کار طے ہوا تھا؟
ان باتوں کی وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔

دارالافتاء الاخلاص٬ کراچی
جواب تنقیح:
یہ ساری رقم صرف نفلی صدقے کی ہے۔
لوگوں نے اپنے مرحومین کی طرف سے نفلی صدقہ کیا ہے، جو کہ مختلف پروجیکٹس میں استعمال ہوتی ہے، غرباء کی آنکھوں کا آپریشن،
تھلیسمیا کے غریب بچوں کی امداد، مستحقین کے گھر کا راشن اور کوئی بھی کام جس سے انسانیت کا فائدہ ہو۔
ساری رقم مختلف ڈونر کی جانب سے ہے، مقصد سب کا نفلی صدقہ ہے۔

جواب: واضح رہے کہ کسی خاص مقصد کے تحت لوگوں سے وصول کی گئی رقم٬ وصول کرنے والوں کے پاس امانت ہوتی ہے٬ اور ان پر لازم ہوتا ہے کہ ان پیسوں کو اسی مصرف میں استعمال کریں، کیونکہ صدقہ کی رقم دینے والوں کا اصل مقصد اس رقم کو اس کے مصرف تک پہنچانا ہے، لہٰذا اس رقم کو تجارت میں لگانا جائز نہیں ہے٬ اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس طرح کرنے سے چندہ کی رقم مصرف تک پہنچانے میں بلاوجہ تاخیرہوگی، البتہ اگر فنڈ کی رقم ضرورت سے زائد ہو٬ فی الحال اس کی کوئی ضرورت نہ ہو، تو پھر درج ذیل چند شرائط کے ساتھ اس زائد رقم کو تجارت میں لگانا جائز ہے٬ وہ شرائط یہ ہیں:
(1) صدقہ کی رقم دینے والوں کی طرف سے اس کی اجازت ہو۔
(2) زائد رقم کاروبار میں لگانا اس مصرف کے مفاد میں ہو، یعنی اصل مقصد مصرف کے مال میں اضافہ ہو٬ یا رقم ضائع ہونے سے محفوظ رکھنا ہو، کسی ذاتی مقصد کے لئے نہ ہو۔
(3) زائد رقم ایسے کاروبار میں لگائی جائے٬ جس میں نقصان کا امکان کم سے کم ہو۔
(4) جو زائد رقم تجارت میں لگائی جائے٬ اس کا نفع اسی مصرف کی ضرورت اور مصالح ہی میں خرچ کیا جاتا ہو۔
(5) رقم اتنی مدت تک تجارت میں نہ لگائی جائے٬ جس سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہو۔
مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ صدقات کی رقم کو جائز کاروبار میں لگانا جائز ہے۔
(ماخذہ: التبویب بتغیر یسیر٬ فتاوی جامعہ دارالعلوم کراچی: ۱۲۶۶:۲۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (535/5، ط: دار الفكر)
"أن قيم الوقف وكيل الواقف والوكالة أمانة لا يصح بيعها"

و فیہ ایضا: (450/4، ط: دار الفکر)
"لیس للمتولي أخذ زيادة على ما قرر له الواقف أصلا ويجب صرف جميع ما يحصل من نماء وعوائد شرعية وعرفية لمصارف الوقف الشرعية"

البحر الرائق: (233/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"ولو كانت الأرض متصلة ببيوت المصر يرغب الناس في استئجار بيوتها وتكون غلة ذلك فوق غلة الزرع والنخل كان للقيم أن يبني فيها بيوتا فيؤاجرها لأن الاستغلال بهذا الوجه يكون أنفع للفقراء"

و فیہ ایضا: (269/5)
"قيم يبيح فناء المسجد ليتجر فيه القوم أو يضع فيه سررا أجرها ليتجر فيها الناس فلا بأس إذا كان لصلاح المسجد"

الفتاوى الهندية: (417/2، ط: دار الفکر)
"متولي المسجد إذا اشترى بمال المسجد حانوتا أو دارا ثم باعها جاز إذا كانت له ولاية الشراء"

و فیہ ایضا: (423/2، ط: دار الفكر)
"وإذا دفع أرض الوقف مزارعة يجوز إذا لم تكن فيه محاباة قدر ما لا يتغابن الناس فيها...... وإن دفع القيم أرض الوقف مزارعة سنين معلومة فهو جائز إذا كان ذلك أنفع وأصلح في حق الفقراء"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 752 May 31, 2021
rifahi maqasid k liye jama ki nafli sadqay ki raqam ko karoobar mai laganay ka shar'ee hukum, Shariah ruling to invest the amount of nafil charity in business collected for charitable purposes

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.