سوال:
مفتی صاحب ! ایک لڑکی کے شوہر نے 10 سال سے شادی کر رکھی ہے، اس عرصے میں شوہر نے بیوی کو نہ نان نفقہ دیا، نہ گھر اور نہ ہی اولاد، اس کی تین بیویاں بھی ہیں۔
لڑکی نے تنگ آکر شوہر سے خلع مانگا ہے، جس کے بدلے میں شوہر کا یہ کہنا تھا کہ جب تک تمہارا رشتہ طے نہ ہو جائے، میں خلع نہیں دے سکتا۔
لڑکی نے کہہ دیا ہے کہ میرا رشتہ طے ہوگیا ہے، اب طلاق دو۔
شوہر نے کہا کہ آج سے تم کو طلاق کا اختیار دیتا ہوں، جبکہ شوہر اس سے پہلے دو طلاق دے چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بیوی کو طلاق کا اختیار دینے پر طلاق واقع ہوجائے گی، اگر وہ طلاق کو اپنے اوپر اختیار کرلے؟
براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ طلاق کا اصل اختیار مرد کو ہے، عورت کو نہیں ہے، لیکن اگر شوہر بیوی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا اختیار دے دے تو بیوی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے، اور بیوی اپنے اوپر طلاق واقع کرکے عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مرد جب پہلے دو طلاق دے چکا ہے اور اب اختیار بھی بغیر کسی شرط کے دیا ہے، تو بیوی کا اپنے اوپر طلاق واقع کرنے سے تین طلاقیں واقع ہو کرحرمت مغلظہ ثابت ہوجائے گی، جس کے بعد مذکورہ عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (36/3، ط: دار الفكر)
قال لها أنت طالق إن شئت فقالت شئت إن شئت أنت، فقال: شئت ينوي الطلاق أو قالت شئت إن كان كذا لمعدوم) أي لم يوجد بعد كإن شاء أبي أو إن جاء الليل وهي في النهار (بطل) الأمر لفقد الشرط.
(وإن قالت شئت إن كان الأمر قد مضى) أراد بالماضي المحقق وجوده كإن كان أبي في الدار وهو فيها، أو إن كان هذا ليلا وهي فيه مثلا (طلقت) لأنه تنجيز (قال لها أنت طالق متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت فردت الأمر لا يرتد ولا يتقيد بالمجلس ولا تطلق) نفسها۔
المحيط البرهاني: (240/3، ط: دار الكتب العلمية)
والأصل في هذا: أن الزوج يملك إيقاع الطلاق بنفسه فيملك التفويض إلى غيره فيتوقف عمله على العلم؛ لأن تفويض طلاقها إليها يتضمن معنى التمليك، لأنها فيما فوض إليها من طلاقها عاملة لنفسها دون الزوج، والإنسان فيما يعمل لنفسه يكون مالكا ولا يكون بائنا عن المرة .....
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی