سوال:
مفتی صاحب ! ایک صاحب کا انتقال ہوا، جن کے ورثاء میں بیوہ، دو بیٹیاں، دو بہنیں اور ایک بھائی ہے، مرحوم کی میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو چھیانوے (96) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو بارہ (12)، دو بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو بتیس (32)، بھائی کو دس (10) اور دونوں بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو پانچ (5) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو
بیوہ کو % 12.5 فیصد
ہر ایک بیٹی کو % 33.33 فیصد
بھائی کو % 10.41 فیصد
ہر ایک بہن کو % 5.20 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11- 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ۔۔۔۔الخ
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ۔۔۔۔الخ
السنن الکبری للبیہقی: (باب میراث إلاخوۃ و الأخوات لأب، رقم الحدیث: 12581، ط: دار الفکر)
عن زیدبن ثابت فإن کان معہن أخ ذکر فإنہ لافریضۃ لأحد من الأخوات، ویبدأ بمن شرکہم من أہل الفرائض فیعطون فرائضہم فما فضل بعد ذلک کان بین الإخوۃ والأخوات للأب والأم للذکر مثل حظ الأنثیین۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی