سوال:
اگر کسی کی قبر کھودی جائے اور اس قبر میں سے صحیح سلامت نعش نکلے، تو کیا اسے دوبارہ غسل دیا جائے گا اور کیا اس پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟
جواب: کسی میت کو دفن کردینے کے بعد اسے قبر سے نکالنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے قبر کھود کر میت کو نکالا جائے اور میت کا بدن صحیح سالم ہو، تو اسے دوبارہ غسل نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی اس پر دوبارہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (232، ط: دار الفکر)
(ولایخرج منہ) بعد إھالۃ التراب (إلا) لحق آدمی۔۔الخ
الدر المختار مع رد المحتار: (205/2، ط: دار الفکر)
(و) آدمی (منبوش طری) لم یتفسخ (یکفن کالذی لم یدفن) مرۃ بعد اخری (وان تفسخ کفن فی ثوب واحد)
(قولہ کالذی لم یدفن) ان یکفن فی ثلاثۃ اثواب… ای لو نبش ثانیا وثالثا واکثر کفن کذلک مادام طریا من اصل مالہ عندنا۔
کتاب التجنیس و المزید: (279/2)
المیت بعد ما دفن مدۃ طویلۃ أو قلیلۃ لایسع إخراجہ من غیر عذر، ویجوز إخراجہ بالعذر، والعذر أن یظھر أن الأرض مغصوبۃ أو أخذھا الشفیع بالشفعۃ۔
الفتاویٰ الولوالجیۃ: (168/1)
واذا دفن المیت لغیر القبلۃ ورأسہ فی أسفلہ ونصب اللبن ولم یھل التراب علیہ نزع اللبن وسوی، وإن ھالوا علیہ التراب لم ینبش لان النبش حرام لمکان ھذہ الأفعال۔ والنبش إنما یکون بعد تمام الدفن وتمام الدفن إنما یکون بعد إھالۃ التراب علیہ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی