سوال:
مفتی صاحب ! والد صاحب کی قبر کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ وغیرہ کروانے کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ سب نہ کرنے پر بندہ گناہ گار ہوگا؟
جواب: تدفین کے بعد اور بعد میں قبر کی حفاظت کے لیے قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا مستحب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا ثابت ہے، اور قبر کی حفاظت کی ضرورت صرف اس وقت تک ہے، جب تک میت مٹی نہیں ہوجاتی، میت کے مٹی ہو جانے کے بعد قبر کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البغوي شرح السنۃ: (رقم الحدیث: 1515، 401/5)
عن جعفر ابن محمد عن أبیہ مرسلاً أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حثی علی المیت ثلاث حثیات بیدیہ جمیعاً وأنہ رش علی قبر ابنہ إبراہیم ووضع علیہ حصباء۔
مرقاۃ المفاتیح: (رقم الحدیث: 1710)
وعنہ قال رش قبر النبي صلى الله عليه وسلم وکان الذي رش الماء علی قبرہ بلال بن رباح بقربۃ بدأ من قبل رأسہ حتی انتہیٰ إلیٰ رجلیہ۔
الفتاوی الھندیۃ: (166/1)
ویسنم القبر قدر الشبر ولایربع ولا یجصص ولا بأس برش الماء علیہ ویکرہ أن یبنی علی القبر۔
رد المحتار: (601/1، ط: نعمانیہ)
لابأس برش الماء علیہ حفظاً لترابہ عن الاندراس بل ینبغی ان یندب لانہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فعلہٗ بقبر سعد رضی اللّٰہ عنہ کما رواہ ابن ماجۃ وبقبر ولدہ ابراہیم کما رواہ ابوداؤد فی مراسیلہ وامر بہ فی قبر عثمان بن مظعون رضی اللّٰہ عنہ کما رواہ البزار الخ۔
احسن الفتاوی: (200/4)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی