سوال:
مفتی صاحب ! میں نے کسی کے لیکچر میں سنا ہے کہ قربانی میں صاحب نصاب ہونے کی شرط لوگوں نے خود اپنی طرف سے لگائی ہوئی ہے، جبکہ آپ ﷺ زندگی بھر صاحب نصاب نہیں رہے ہیں، اس کے باوجود ہر سال قربانی کی ہے۔ براہ کرم اس بات کا جواب عنایت فرمادیں۔
جواب: یاد رہے کہ قربانی کی دو قسمیں ہیں:(۱) واجب (۲) نفل
قربانی کے واجب ہونے کے لیے وسعت شرط ہے اور یہ آپ ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے،حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس کے پاس (قربانی کرنے کی) گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے"۔ (سنن ابن ماجه، حدیث نمبر:3123)
اس حدیث میں قربانی نہ کرنے کو وسعت کے ساتھ مقید کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان وسعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکتا، وہ اس حدیث کا مصداق نہیں، جہاں تک نفلی قربانی کے صحیح ہونے کی بات ہے تو اس کے لیے وسعت شرط نہیں ہے، اگر کوئی مسلمان باوجود اس کے کہ وہ وسعت نہیں رکھتا، پھر بھی جانور قربان کرلے تو اس کی قربانی کے صحیح ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اس کی قربانی بالاتفاق صحیح ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1494)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ، وَسَمَّى، وَكَبَّرَ، وَوَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا"
الفتاوى الهندية: (191/1، ط:دارالفکر)
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی