سوال:
السلام علیکم، ایک شخص کے پاس ٹینٹ کراکری کا سامان ہے، جس کی مالیت تقریباً چودہ لاکھ ہے، وہ سامان رینٹ پہ دیتا ہے، اس صورت میں اس پر قربانی کیا حکم ہوگا؟
جواب: جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو، جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، تو ایسے مرد و عورت پر قربانی واجب ہے۔
صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کی ملکیت میں چودہ لاکھ کی مالیت کی تجارت کا سامان ہے، جو قربانی کے نصاب (ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت) سے زیادہ بے، لہذا آپ شرعی لحاظ سے صاحب نصاب ہیں اور آپ پر قربانی واجب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مختصر القدوری: (208/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
الأضحية واجبة على كل حر مسلم مقيم موسر في يوم الأضحى عن نفسه وولده الصغار يذبح عن كل واحد منهم شاة أو يذبح بدنة أو بقرة عن سبعة
المحیط البرھانی: (86/6، ط: دار الکتب العلمیة)
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله، والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم، أو عشرون ديناراً، أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع..... أو لغيرها فإنها.... في داره.
وفي «الأجناس» إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية، وكذلك لو نقص عن المائتين، ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی