سوال:
مفتی صاحب ! ایک عورت ہے، جس کے پاس اثاثے اور مکان ہے، پہلی شادی سے اس کی ایک بیٹی ہے، اس نے دوسری شادی کی اور دوسری شادی سے بچے ہیں، اب کیا وہ پہلی شادی سے ہونے والی بیٹی کے نام اپنا گھر کر سکتی ہے، کیونکہ ماں کو خدشہ ہے کہ اس کی موت کی صورت میں اس کی مذکورہ بیٹی کی صحیح دیکھ بھال نہیں کی جا سکتی، یا اس کا دوسرا شوہر عورت کی پہلی بیٹی سے زیادہ اپنے حقیقی بچوں پر مہربان ہو سکتا ہے۔
براہ کرم اس مسئلہ کا تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ (gift) کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد تمام اولاد میں برابر تقسیم کی جائے، یعنی جتنا بیٹے کو دے، اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر وہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلا اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے، یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتی ہیں، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو، تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوں گی۔
صورتِ مسئولہ میں اگر وہ عورت اپنا گھر صرف اپنی مذکورہ بیٹی کو دینا چاہتی ہے، اور والدہ کا مقصد باقی بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا نہیں ہے، تو ایسی صورت میں گھر صرف اس ایک بیٹی کو دینے کی گنجائش ہے، لیکن اگر والدہ کا مقصد دیگر اولاد کو اپنی جائیداد سے بالکلیہ محروم کرنا یا نقصان پہنچانا ہو، تو پھر یہ تقسیم غیر منصفانہ ہوگی، اور مذکورہ عورت گناہ گار ہوگی۔
واضح رہے کہ شرعی طور پر ہبہ (gift) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورت اپنا گھر بیٹی کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل قبضہ اور مالکانہ اختیارات بھی دے، اور اس گھر سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ شرعاً ہبہ (gift) درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (باب العطایا، 261/1، ط: قدیمی)
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔
مرقاة المفاتيح: (2008/5، ط: دار الفكر)
(فَقَالَ: آكُلَّ وَلَدِكَ) : بِنَصْبِ كُلَّ (نَحَلْتَ مِثْلَهُ) أَيْ: مِثْلَ هَذَا الْوَلَدِ دَلَّ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ.........قَالَ النَّوَوِيُّ: " فِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْأَوْلَادِ فِي الْهِبَةِ فَلَا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ سَوَاءٌ كَانُوا ذُكُورًا أَوْ إِنَاثًا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَلَوْ وَهَبَ بَعْضَهُمْ دُونَ بَعْضٍ فَمَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ وَالْهِبَةُ صَحِيحَةٌ، وَقَالَ أَحْمَدُ وَالثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - وَغَيْرُهُمْ: هُوَ حَرَامٌ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ: «لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ».
تكملة فتح الملهم: (71/5، ط: دار العلوم کراتشی)
"فالذي يظهر لهذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،.........أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد...
الدر المختار: (696/5، ط: دار لفکر)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم..
البحر الرائق: (288/7، ط: دار الکتاب الاسلامی)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.
الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب..
رد المحتار: (690/5، ط: دار الفکر)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".
الھندیة: (378/4، ط: رشیدیة)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی