سوال:
فرض اور نفلی نمازوں میں قومے اور جلسے میں ٹھہرنے کی مقدار کیا ہے؟
جواب: قومہ اور جلسہ میں ایک مرتبہ سبحان ربی الاعلی کہنے کی مقدار ٹھہرنا واجب ہے، جبکہ قومہ میں مسنون یہ ہے کہ نمازی رکوع سے اطمینان کے ساتھ اس طرح سیدھا کھڑا ہوجائے کہ اس کا ہر جوڑ اپنی جگہ پر آجائے، اسی طرح جلسہ میں مسنون یہ ہے کہ نمازی اس قدر اطمینان کے ساتھ سیدھا بیٹھ جائے کہ اس کا ہر جوڑ اپنی جگہ پر آجائے۔
چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا یہ معمول مبارک نفل نمازوں میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ جتنا وقت رکوع اور سجدے میں گزارتے تھے، اتنا ہی وقت جلسہ اور قومہ میں گزارتے تھے۔صحیح مسلم میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرتﷺ کی نماز کا اندازہ لگایا تو میں نے آپ ﷺ کے قیام، رکوع، رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونے، آپ ﷺ کے سجدہ کرنے اور دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ اور دوسرے سجدہ، قعدہ اورسلام پھیرنے کو تقریباً برابر پایا۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 471)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 498، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «يستفتح الصلاة بالتكبير. والقراءة، ب الحمد لله رب العالمين، وكان إذا ركع لم يشخص رأسه، ولم يصوبه ولكن بين ذلك، وكان إذا رفع رأسه من الركوع لم يسجد، حتى يستوي قائما، وكان إذا رفع رأسه من السجدة، لم يسجد حتى يستوي جالسا۔۔۔الخ
و فیه ایضاً: (رقم الحدیث: 471، ط: دار إحياء التراث العربي )
عن البراء بن عازب، قال: «رمقت الصلاة مع محمد صلى الله عليه وسلم، فوجدت قيامه فركعته، فاعتداله بعد ركوعه، فسجدته، فجلسته بين السجدتين، فسجدته، فجلسته ما بين التسليم والانصراف، قريبا من السواء»
فتح الملہم: (293/3، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
والذی یغلب علی الظن -واللہ تعالی سبحانہ و تعالی اعلم- ھو ماقالہ بعض العلماء من کون ذکر القیام فی ھذا الحدیث وھما و استثناء القیام والقعود ھو اصح واقرب الی ما ھو المنقول من صفۃ صلاتہ فی اکثر الاحیان وان التقارب انما ھو فی غیر ھذین الرکنین، ویشھد لذلک انہ لم یذکر فی الحدیثین جلوس التشھد فیکون ذکر القیام وھما ممن رواہ فان القیام للقراءۃ اطول من جمیع الارکان فی الغالب۔
رد المحتار: (464/1، ط: دار الفکر)
وأما القومة والجلسة وتعديلهما فالمشهور في المذهب السنية، وروي وجوبها، وهو الموافق للأدلة، وعليه الكمال ومن بعده من المتأخرين وقد علمت قول تلميذه: إنه الصواب
و فیه ایضا: (477/1، ط: دار الفکر)
(والجلسة) بين السجدتين، ووضع يديه فيها على فخذيه كالتشهد للتوارث
البحر الرائق: (316/1، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله: وتعديل الأركان) وهو تسكين الجوارح في الركوع والسجود حتى تطمئن مفاصله وأدناه مقدار تسبيحة، وهو واجب على تخريج الكرخي، وهو الصحيح
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی