سوال:
جو اولاد اپنے والدین سے محبت کرتے ہیں ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعا مغفرت اور قرآن وغیرہ پڑھتے ہیں اپنے طور پر لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ سال میں ایک دفعہ سب بہن بھائی جمع ہوکر ان کے لئے کچھ پڑھیں ،اس سلسلہ مین پوچھنا ہے کہ جس مہینہ میں انتقال ہو یس مہینہ میں کسی دن جمع ہوسکتے ہیں ؟
جواب: واضح رہے کہ والدین سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے، ان کے لئے قرآن پڑھ کر اور دعائیں مانگ کر ایصال ثواب کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مستحسن ہے، اس سے میت کو اور پڑھنے والے دونوں کو فائدہ ہوتا ہے، البتہ شریعت میں اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں، جو شخص جس وقت اور جس دن چاہے، کوئی بھی عمل کرکے ایصال ثواب کرسکتا ہے، اس کے لئے ہر سال کوئی دن یا مہینہ خاص کر کے جمع ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (184/3، ط: دار طوق النجاۃ)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه، فهو رد» رواه عبد الله بن جعفر المخرمي، وعبد الواحد بن أبي عون، عن سعد بن إبراهيم
مرقاة المفاتیح: (31/3، ط: رشیدیة)
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر ۔
شرح العقائد: (ص: 172)
وفی دعاء الاحیاء للاموات وصدقتھم ای صدقۃ الاحیاء عنھم ای عن الاموات نفع لھم ای للاموات …ولنا ما ورد فی الاحادیث الصحاح من الدعا للاموات خصوصا فی صلاۃ الجنازۃ وقد توارثہ السلف فلو لم یکن للاموات نفع فیہ لما کان لہ معنی وقال علیہ السلام مامن میت تصلی علیہ امۃ من المسلمین یبلغون مائۃ کلھم یشفعون الا شفعوا فیہ وعن سعد بن عبادۃ انہ قال یا رسول اﷲ ان ام سعد ماتت فای الصدقۃ افضل قال الماء فحفر بیرا وقال ھذا لام سعد۔
رد المحتار: (مطلب فی القراءۃ للمیت، 180/2، ط: دار الفکر)
(تنبیہ) صرح علماءنا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا کذا فی الھدایۃ، بل فی زکاۃ التتارخانیۃ عن المحیط: الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شیٔ اھ ھو مذھب اھل السنۃ والجماعۃ....ولھذا اختاروا فی الدعاء: اللھم اوصل مثل ثواب ما قرأتہ الی فلان، واما عندنا فالواصل الیہ نفس الثواب وفی البحر: من صام اوصلی او تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والاحیاء جاز، ویصل ثوابھا الیھم عند اھل السنۃ والجماعۃ کذا فی البدائع....أن الظاہر أنہ لا فرق بین أن ینوي بہ عند الفعل للغیر أو یفعلہ لنفسہ ثم یجعل ثوابہ لغیرہ لإطلاق کلامہم․ قال: قولہ: ” لغیرہ“ أي من الأحیاء والأموات۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی