سوال:
السلام علیکم، ایک صاحب نصاب شخص نے ماہ محرم میں قربانی کی نیت سے جانور خریدا تو کیا اس شخص پر نیت کی وجہ سے قربانی واجب ہو گی؟ نیز اس جانور سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؟ اور اگر قربانی کے دنوں سے پہلے اس جانور کو بیچ کر اس سے کم قیمت کا جانور قربانی کے لیے خرید لیا تو کیا قربانی درست ہوگی اور بقیہ رقم کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: اگر کوئی صاحبِ نصاب شخص قربانی کے ایام سے پہلے کوئی جانور قربانی کی نیت سے خرید لے تو اس جانور کی قربانی اس پر لازم نہیں، اس کو بدل سکتا ہے اور فروخت بھی کرسکتا ہے، لیکن بلا ضرورت اس کو بدلنا اور اس سے نفع وغیرہ اٹھانا مکروہ ہے، اور اگر اس جانور کو فروخت کرکے اس کی جگہ دوسرا کم قیمت کا جانور قربان کردے تواس کی قربانی ادا ہوجائے گی، البتہ دونوں جانوروں میں قیمت کا جو فرق ہو، اس کو صدقہ کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (329/6، ط: دار الفکر)
و الجواب ان المشتراۃ للاضحیۃ متعینۃ للقربۃ الی ان یقام غیرھا مقامھا، فلا یحل لہ الانتفاع بھا مادامت متعینۃ۔۔۔۔۔۔و یاتی قریباً انہ یکرہ ان یبدل بھا غیرہ، فیفید التعیین۔
الھندیة: (300/5، ط: ماجدیة)
و لو اشترى شاة للاضحية فيكره أن يحلبها او يجز صوفها فينتفع به لانه عينها للقربة فلا يحل لہ الانتفاع بجزء من أجزائها قبل اقامة القربة فيها كما لايحل له الانتفاع بلحمها اذا ذبحها قبل وقتها ومن المشائخ من قال هذا في الشاة المنذور بها بعينها من المعسر والموسر وفي الشاة المشتراة للاضحية من المعسر فاما المشتراة من الموسر للاضحية فلا بأس أن يحلبها ويجز صوفيها كذا في البدائع و الصحيح ان الموسر و المعسر في حلبها وجز صوفها سواء هكذا في الغياثية . ولو حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح او جز صوفها يتصدق ولا ينتفع به كذا في الظهيرية
و فیھا ایضاً: (294/5، ط: ماجدیة)
ولو باع الأولى بعشرين فزادت الأولى عند المشترى فصارت تساوي ثلاثين على قول ابي حنيفة بيع الأولى جائز فكان عليه ان يتصدق بحصة زيادة حدثت عند المشترى
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی