سوال:
جس عورت کو اس کے خاندان والے اس کے نکاح کے بعد خاندانی اختلاف کی وجہ سے اپنے پاس بٹھا دیں، یہاں تک کہ بہت عرصہ ہو چکا ہو اور اس کا خاوند کا انتقال ہو جائے اور وہ عورت اپنے خاوند کے انتقال پر نہ آئے اور نہ ہی اس کا منہ دیکھے اور نہ ہی وہ عدت کرے تو کیا وہ عورت اپنے خاوند کی ملکیت کی وارث بن سکتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں شکریہ
جواب: واضح رہے کہ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے سے ناراضگی کے سبب الگ الگ رہتے ہوئے خواہ کتنا ہی عرصہ گذر جائے، اس سے ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نکاح برقرار رہتا ہے، چاہے وہ شوہر کے انتقال پر نہ آئے اور نہ ہی عدت گزارے، لہذا بیوہ عورت کو ہر صورت، اس کے شوہر کی میراث میں سے حصہ دینا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الوصایا، رقم الحدیث: 3078، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی