سوال:
مفتی صاحب ! کیا نکاح کے لیے دستخط کرنا ضروری ہے، اگر کسی نے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کر لیا اور نکاح نامہ پر دستخط نہیں کیے تو کیا نکاح ہو جائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں زبانی طور پر ایجاب و قبول کرنے سے شرعی طور پر نکاح منعقد ہوجاتا ہے٬ نکاح کے معاہدہ کو تحریر میں لانا یا نکاح نامہ پُر (fill) کرنا اور اس پر دستخط کرنا٬ نکاح کے صحیح ہونے کیلئے شرعا لازم یا ضروری نہیں ہے٬ تاہم جن معاملات میں فریقین کے ایک دوسرے سے حقوق متعلق ہوتے ہوں٬ تو شریعت ایسے معاملات اور معاہدات کو تحریری طور پر ریکارڈ میں لانے کی ترغیب دیتی ہے٬ نیز بہت سے معاشرتی اور قانونی مسائل میں نکاح کے تحریری ریکارڈ کی ضرورت پیش آتی ہے٬ اس وجہ سے بھی نکاح کے معاہدہ کو تحریری صورت میں مرتب کرلینا بہتر اور شریعت کے مزاج کے عین مطابق ہے٬ لہذا اس کا اہتمام کرنا چاہئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 282)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ....الخ
الدر المختار: (14/3، ط: دار الفکر)
"ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين، وإن طال كمخيرة، وأن لا يخالف الإيجاب القبول"
البحر الرائق: (94/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
"(قوله: عند حرين أو حر وحرتين عاقلين بالغين مسلمين، ولو فاسقين أو محدودين أو أعميين أو ابني العاقدين) متعلق بينعقد بيان للشرط الخاص به، وهو الإشهاد فلم يصح بغير شهود لحديث الترمذي «البغايا اللاتي ينكحن أنفسهن من غير بينة» ولما رواه محمد بن الحسن مرفوعا «لا نكاح إلا بشهود» فكان شرطا"
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی