سوال:
السلام علیکم، ایک شخص اپنے دوست کو فون کر کے اپنی بیوی کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کو رکھوں تو اپنی مری ہوئی ماں کو رکھوں،
اس کے دو گھنٹے کے بعد فون کر کے یہی لفظ دو مرتبہ بولے اور لفظ طلاق کو نہیں بولا ہے۔
اب وہ شخص دو سال کے بعد گھر آرہا ہے، ان شوہر اور بیوی کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے،ان الفاظ میں اگر طلاق کی نیت کرلی جائے تو ان کے ادا کرنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے.
مذکورہ صورت میں یہ کہنا کہ "اگر میں اپنی بیوی کو رکھوں تو اپنی مری ہوئی ماں کو رکھوں" یہ الفاظ ظہار اور طلاق دونو ں کا احتمال رکھتے ہیں،لہذا اگر ان الفاظ سے طلاق دینا مراد تھی تو طلاق واقع ہوجائے گی،اور اگر ان الفاظ سے ظہار مراد تھا تو قسم کا کفارہ واجب ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (465/3، ط: دار الفکر)
هُوَ لُغَةً مَصْدَرُ ظَاهَرَ مِنْ امْرَأَتِهِ: إذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي ....شَرْعًا (تَشْبِيهُ الْمُسْلِمِ)(زَوْجَتَهُ).... (أَوْ) تَشْبِيهُ مَا يُعَبَّرُ بِهِ عَنْهَا مِنْ أَعْضَائِهَا، أَوْ تَشْبِيهُ (جُزْءٍ شَائِعٍ مِنْهَا بِمُحَرَّمٍ عَلَيْهِ تَأْبِيدًا)
و فیه ایضاً: (472/3، ط: دار الفکر)
(هِيَ)(تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ)(فَإِنْ لَمْ يَجِدْ) الْمُظَاهِرُ (مَا يُعْتِقُ)(صَامَ شَهْرَيْنِ )وَحَاصِلُهُ أَنَّهُ إذَا ابْتَدَأَ الصَّوْمَ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ كَفَاهُ صَوْمُ شَهْرَيْنِ تَامَّيْنِ،
و فیه ایضاً: (296/3، ط: دار الفکر)
بَابُ الْكِنَايَاتِ (كِنَايَتُهُ) عِنْدَ الْفُقَهَاءِ (مَا لَمْ يُوضَعْ لَهُ) أَيْ الطَّلَاقِ (وَاحْتَمَلَهُ) وَغَيْرَهُ (فَ) الْكِنَايَاتُ (لَا تَطْلُقُ بِهَا)
قَضَاء (إلَّا بِنِيَّةٍ أَوْ دَلَالَةِ الْحَالِ)۔
امداد الفتاوی: (476/2، ط: مکتبۃ دار العلوم کراتشی)
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتویٰ: 144012201832
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی