سوال:
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں احادیث مبارکہ میں اقالہ کے بارے فضائل آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے اقالہ کی مدت متعین کی ہے یا بائع اور مشتری کی صوابدید پر چھوڑا ہے؟ برائے کرم وضاحت فرمادیجئے۔
جواب: اقالہ میں شریعت کی طرف سے کوئی مدت متعین نہیں ہے، بلکہ طرفین آپس کی رضامندی سے جب معاملہ ختم کرنا چاہیں، ختم کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایۃ: (55/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
الإقالة جائزة في البيع بمثل الثمن الأول" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من أقال نادما بيعته أقال الله عثرته يوم القيامة" ولأن العقد حقهما فيملكان رفعه دفعا لحاجتهما
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی