سوال:
مفتی صاحب ! اگر کوئی قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرسکا تو اس کے بدلے صرف قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے یا غلہ وغیرہ خرید کر صدقہ کرنے کی بھی اجازت ہے؟
جواب: اگر قربانی کے ایام گزر جائیں اور صاحب نصاب شخص نے قربانی نہ کی ہو تو اب قربانی کی قضاء نہیں ہے، البتہ اس صورت میں ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے، جبکہ بعض علماء کے نزدیک قربانی کے ایک حصے کے برابر رقم صدقہ کرنا بھی کافی ہے۔
واضح رہے کہ صدقہ میں جس طرح رقم دینا جائز ہے، اسی طرح غریب کی ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے صرف اتنی قیمت کا غلہ یا اناج وغیرہ بھی دیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (321/6، ط: دار الفکر)
(ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها)۔۔۔۔تصدق (بقيمتها غني شراها أولا) لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها.
(قوله وتصدق بقيمتها غني شراها أو لا) كذا في الهداية وغيرها كالدرر. وتعقبه الشيخ شاهين بأن وجوب التصدق بالقيمة مقيد بما إذا لم يشتر، أما إذا اشترى فهو مخير بين التصدق بالقيمة أو التصدق بها حية كما في الزيلعي أبو السعود.
الفتاوی الھندیۃ: (مسائل شتی فی الزکاۃ، 181/1، ط: دار الفکر)
وإذا كان لرجل مائتا قفيز حنطة قيمتها مائتا درهم فصاحبها بالخيار إن شاء أدى زكاتها من العين، وهي خمسة أقفزة حنطة، وإن شاء أدى زكاتها من القيمة كذا في شرح الطحاوي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی