سوال:
کیا یہ عقیدہ رکھنا درست ہے کہ " ن" سے نام رکھنا بھاری ہے اور قسمت میں منفی اثرات رکھتا ہے؟ کچھ تفصیل ارشاد فرمادیں۔
جواب: بچے کے نام رکھنے سے متعلق دو باتیں ذہن نشین فرمائیں:
1.اچھا نام رکھنے کو آپ ﷺ نے اولاد کے حقوق میں شمار فرمایا ہے۔
ایک حدیث میں ہے :
عِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ :أَنَّہُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ عَلِمْنَا مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَی الْوَلَدِ فَمَا حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی الْوَالِدِ؟قَالَ أَنْ یُحْسِنَ اِسْمَہ‘ وَیُحْسِنَ أَدَبَہ‘۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ جان لیا کہ بچہ پر باپ کا کیا حق ہے، پس (آپ بتائیں کہ) باپ پر بچے کا کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ(باپ پر بچہ کا یہ حق ہے کہ ) اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسنِ ادب سے آراستہ کرے۔
( شعب الایمان، حدیث نمبر:8658)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اِنَّکُمْ ُتدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوْا أَسْمَائَکُمْ ۔
ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایا: کہ تم لوگ قیامت کے دن اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤگے تو اپنا نام اچھا رکھو۔
(سنن ابی داؤد:2/676،المیزان ،کراچی)
1. اچھے ناموں کے اچھے اثرات اور برے ناموں کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں یہ واقعہ منقول ہے :
عَنْ عَبْدِالْحَمِیْدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ شَیْبَۃَ قَالَ جَلَسْتُ اِلٰی سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فَحَدَّثَنِیْ أَنَّ جَدَّ ہٗ حَزَنًا قَدِمَ عَلٰی النبی صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ مَا اسْمُکَ قَالَ اسْمِیْ حَزَنٌ قَالَ بَلْ اَنْتَ سَھْلٌ قَالَ ھَل اَنَا بِمُغَیِّرٍ اِسْمًا سَمَّانِیْہِ أَبِیْ قَالَ ابْنُ المُسَیِّبِ فَمَا زَالَتْ فِیْنَا الْحَزُوْنَۃُ بَعْدُ۔
ترجمہ: حضرت عبد الحمید ابن جبیر ابن شیبہ کہتے کہ (ایک دن ) میں حضرت سعید ابن المسیب کی خدمت میں حاضر تھا کہ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا میرانام حزن ( جس کے معنٰی ہیں سخت اور دشوار گزارزمین) ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ: (حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے ) بلکہ میں تمہارا نام سہل ( اس کے معنی ہیں ملائم اور ہموار زمین، جہاں آدمی کو آرام ملے) رکھتا ہوں۔ میرے دادا نے کہا کہ میرے باپ نے میرا جو نام رکھا ہے، اب میں اس کو بدل نہیں سکتا، حضرت سعید ؓ نے فرمایا کہ: اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔
( بخاری: 2/914 )
اس سے اتنی بات واضح ہو گئی کہ کبھی ناموں کے اچھے، برے اثرات مسمٰی پر مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا اچھے ناموں کا انتخاب کرنا چاہئے اور برے ناموں سے احتراز کرنا چاہئے، لیکن کسی نام کا صرف "نون" سے شروع ہونا، اس کے برے ہونے کی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس میں اصل اعتبار معنی کا ہے، مزید یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام اور بہت سے صحابہ کرام (جیسے : نوفل، نواس، نعمان اور نافع) رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام نون سے شروع ہوتے ہیں، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کو نام تبدیل کرنے کا نہیں فرمایا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صفاتی نام بھی نون سے شروع ہوتے ہیں،(جیسے نذیر ، ناصر) اور بعض تابعین اور تبع تابعین کے نام بھی نون سے شروع ہوتے ہیں،(جیسے امام ابوحنیفہ کا نام نعمان تھا)اور ان پر کوئی نکیر نہیں کی گئی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عقیدہ من گھڑت ہے، شریعت میں اسکی کوئی اصل نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شعب الایمان: (رقم الحدیث: 8658، مکتبہ الرشد)
عِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ :أَنَّہُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ عَلِمْنَا مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَی الْوَلَدِ فَمَا حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی الْوَالِدِ؟قَالَ أَنْ یُحْسِنَ اِسْمَہ‘ وَیُحْسِنَ أَدَبَہ‘۔
سنن ابی داؤد: (677/2، ط: المیزان)
اِنَّکُمْ ُتدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوْا أَسْمَائَکُمْ ۔۔۔۔
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 6193، 914/2، ط: دار طوق النجاة)
عَنْ عَبْدِالْحَمِیْدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ شَیْبَۃَ قَالَ جَلَسْتُ اِلٰی سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فَحَدَّثَنِیْ أَنَّ جَدَّ ہٗ حَزَنًا قَدِمَ عَلٰی النبی صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ مَا اسْمُکَ قَالَ اسْمِیْ حَزَنٌ قَالَ بَلْ اَنْتَ سَھْلٌ قَالَ ھَل اَنَا بِمُغَیِّرٍ اِسْمًا سَمَّانِیْہِ أَبِیْ قَالَ ابْنُ المُسَیِّبِ فَمَا زَالَتْ فِیْنَا الْحَزُوْنَۃُ بَعْدُ۔۔۔۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی