سوال:
میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے، ورثاء میں ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں، والد صاحب کی ملکیت میں ایک پگڑی کا مکان ہے، اب اس مکان کو ہم فروخت کرنا چاہتے ہیں، براہ کرم بتادیجیے کہ جو بھی اماؤنٹ آئے گی، اس کی فیصد کے اعتبار سے ہم ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگی؟
تنقیح:
محترمہ ! کیا ذکر کردہ ورثاء کے علاوہ والد صاحب کے دیگر شرعی ورثاء (والدین، بہن، بھائی، بھتیجے وغیرہ) زندہ ہیں؟ اگر نہیں ہیں، تو ان کا انتقال والد صاحب کی زندگی میں ہوا ہے یا بعد میں ہوا ہے؟ ان باتوں کی وضاحت فرمادیں، اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح:
میرے والد صاحب کے والدین اور بھائی کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہوگیا تھا، والد صاحب کی صرف ایک غیر شادی شدہ بہن تھیں، ان کا انتقال والد صاحب کے بعد ہوگیا تھا۔
جواب: مرحومین کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی کے لیے جائز وصیت کی ہو٬ تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل متروکہ مال و جائیداد کو بہتر (72) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو نو (9) اور ہر ایک بیٹی کو اکیس (21) حصے ملیں گے۔
فیصد کے اعتبار سے تقسیم اس طرح ہوگی:
بیوہ کو % 12.5 فیصد
ہر ایک بیٹی کو % 29.16 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 11- 12)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ....الخ
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ....الخ
الھندیۃ: (447/6، ط: دار الفکر)
"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط۔۔۔ثم بالدين۔۔۔ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين۔۔۔ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث"
و فیھا ایضاً: (448/6، ط: دار الفکر)
"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار "
و اللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی