سوال:
مفتی صاحب ! میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے، مرحومہ بہن کے ورثاء میں ایک بیٹی اور ایک بھائی ہے، باقی والدین، شوہر اور بیٹے کا انتقال مرحومہ بہن کی زندگی میں ہوگیا تھا۔
براہ کرم رہنمائی فرمادیں کہ مرحومہ بہن کی میراث کس تناسب سے تقسیم ہوگی؟
جواب: مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو دو (2) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیٹی کو ایک (1) اور بھائی کو ایک (1) حصہ ملے گا۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں، تو بیٹی کو % 50 فیصد اور بھائی کو % 50 فیصد ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ....الخ
صحیح البخاری: (باب ميراث الولد من أبيه و أمه، رقم الحدیث: 6732، ط: دار الکتب العلمیة)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا ، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.
رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی