عنوان: حکومت یا کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ ریٹ سے زائد قیمت پر مال بیچنا(8431-No)

سوال: کیا شریعت میں نفع کی کوئی حد نہیں ہے؟ اگر کسی چیز کا ایک ریٹ گورنمنٹ یا کمپنی نے طے کیا ہو جیسے: دودھ کا ریٹ 170 روپے طے ہے اسی طرح کسی کمپنی نے ایک موبائل کا ریٹ 12 ہزار روپے طے کیا ہو تو کیا اس سے زیادہ قیمت پر بھی بیچا جاسکتا ہے، اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت تو نہیں ہے؟

جواب: حکومت کی طرف سے تاجروں کو ایک قیمت کا پابند بنانا "تسعیر" کہلاتا ہے، اگر حکومت عوام کی مصلحت اور ان کو نقصان سے بچانے کی خاطر کسی چیز کا ایک معقول ریٹ مقرر کر دیتی ہے تو حکومت کیلئے ایسا کرنے کی گنجائش ہے، اور مصلحت پر مبنی ایسے جائز ملکی قوانین کی پاسداری شرعا بھی لازم ہے۔
نیز اگر دکاندار کسی کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر/ڈیلر ہے، یا کسی کمپنی کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کے مطابق اسے کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پر بیچنے کا پابند کیا گیا ہے تو ایسی صورت میں معاہدہ کے مطابق کمپنی کے مقرر کردہ قیمت کی پاسداری لازم ہوگی۔
حکومت یا کمپنی کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کی صورت میں جائز ملکی قانون/معاہدہ کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا، تاہم مقررہ قیمت سے زائد قیمت پر بیچنے کی صورت میں اضافی نفع حرام نہیں کہلائے گا، بشرطیکہ حرمت کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوى الهندية (214/3، ط: دار الفکر)
ولا يسعر بالإجماع إلا إذا كان أرباب الطعام يتحملون ويتعدون عن القيمة وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فلا بأس به إلا بمشورة أهل الرأي والبصر هو المختار وبه يفتى كذا في الفصول العمادية فإن سعر فباع الخباز بأكثر مما سعر جاز بيعه كذا في فتاوى قاضي خان.

الهداية: (378/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
فإن كان أرباب الطعام يتحكمون ويتعدون عن القيمة تعديا فاحشا، وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فحينئذ لا بأس به بمشورة من أهل الرأي والبصيرة، فإذا فعل ذلك وتعدى رجل عن ذلك وباع بأكثر منه أجازه القاضي.

بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 169، ط: دار القلم)
لا ينبغي مخالفة هذا السعر، إما لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجب، وإما لأن كل من يسكن دولة فإنه يلتزم قولا أو عملا بأنه يتبع قوانينها، و حينئذ يجب عليه اتباع أحكامها، مادامت تلك القوانين لا تجبر على معصیة دينية.

سنن الترمذی: (ابواب الاحکام، 251/1، ط: مکتبة بلال دیوبند)
المسلمون علی شروطھم الا شرطا حرم حلالا او احل حراماً

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 963 Sep 21, 2021
hukomat / government/ sarkar ya company ki taraf se / say muqarar karda rate se / say zaid / zayed qemat per mall bechna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.