عنوان: خرید و فروخت کے معاملے میں باقی رقم نہ دینے کی صورت میں ایڈوانس لی گئی رقم کا حکم(8441-No)

سوال: والد صاحب کا ایک پلاٹ ہم نے کسی کو فروخت کیا اس نے 550000 بطور ایڈوانس کے ہمیں دیئے اور باقی کے پیسے اس کو تین ماہ بعد دینے طے ہوئے لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اس نے باقی رقم ادا نہیں کی، اب قانونی طور پر ہمیں اس بندہ کے پیسے نہیں دینے، حالانکہ وہ پیسے مانگ رہا ہے مگر ہم نے منع کردیا تو اس بارے میں اسلام کیا کہتا ہے جبکہ ایگریمنٹ پہلے سے اسی طرح ہوا تھا، کیا ان پیسوں کے رکھنے پر ہمیں گناہ ملے گا؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر پلاٹ کی خرید و فروخت کا باقاعدہ سودا ہو گیا تھا(جیسا کہ سوال کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے) اور ایڈوانس دے کر باقی قیمت بعد میں دینا طے ہوا تھا، تو شرعی طور پر وہ پلاٹ آپ کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں چلا گیا ہے، اور ایڈوانس لی گئی رقم آپ کی ملکیت ہے، اب آپ صرف پلاٹ کی طے شدہ بقیہ قیمت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، نیز خریدار پر طے شدہ بقیہ قیمت کی ادائیگی شرعا لازم ہے، بلاوجہ اس میں ٹال مٹول کرنا یا سودے کو کینسل کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔
تاہم اگر وہ پیسے نہ دے رہا ہو تو باہمی رضامندی سے اس سودے کو کینسل کیا جا سکتا ہے، سودا کینسل کرنے کی درج ذیل دو صورتیں ہیں:
1۔ جس قیمت پر پلاٹ فروخت کیا تھا اسی قیمت پر واپس لیا جائے، (جسے شرعی اصطلاح میں "اقالہ" کہا جاتا ہے، اور اس کی حدیث مبارکہ میں فضیلت آئی ہے) ایسی صورت میں ایڈوانس لی گئی رقم اسے واپس کرنا شرعا ضروری ہوگا، اس رقم کو استعمال کرنا شرعا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ مالی جرمانہ ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔
2۔ اسی قیمت پر سودا کینسل نہ کیا جائے، بلکہ باہمی رضامندی سے ایک نئی قیمت پر خرید وفروخت کا نیا معاملہ کرلیا جائے، جس کی صورت یہ ہوگی کہ خریدار سے کہا جائے کہ یہ پلاٹ تو آپ کی ملکیت ہے، لیکن چونکہ آپ پیسے نہیں دے رہے، اس لئے اب یہی پلاٹ نئی قیمت کے عوض ہمیں فروخت کردیں، وہ نئی قیمت پرانی قیمت سے کم طے کی جاسکتی ہے، جس میں ایڈوانس والی رقم بھی ایڈجسٹ (Adjust) ہو جائے، اور وہ واپس نہ کرنی پڑے۔
دوبارہ خریداری کا یہ معاملہ چونکہ پہلے معاملے کے ساتھ مشروط نہیں ہے، اس لئے اگر باہمی رضامندی سے ایسا کرلیا جائے، تو اس کی گنجائش ہے۔
البتہ اگر فریقین کے درمیان خرید و فروخت کا نیا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ سودا ختم کرنا ہو، تو پھر آپ کیلئے ایڈوانس لی گئی رقم رکھنا شرعا جائز نہیں ہے، بلکہ اسے واپس کرنا شرعا ضروری ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (الأسراء، الایة: 34)
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًاo

و قوله تعالي: (النساء، الایة: 29)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ .... الخ

الهدایة: (55/3، ط: دار احیاء التراث العربي)
الإقالة جائزة في البيع بمثل الثمن الأول" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من أقال نادما بيعته أقال الله عثرته يوم القيامة" ولأن العقد حقهما فيملكان رفعه دفعا لحاجتهما

مسند أحمد: (299/34، ط: مؤسسة الرسالة)
عن ابي حرة الرقاشی عن عمه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم: ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه

الفتاوى الهندية: (157/3، ط: دار الفکر)
وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين.

فقه البیوع: (581/1، ط: معارف القران)
ومن ابتاع سلعة علی ان البائع متی رد الثمن فالسلعة له، لم یجز لانه بیع وسلف۔قال سحنون: بل سلف جر منفعة۔اھ
ولکن اذا وقع البیع مطلقا عن هذا الشرط، ثم وعد المشتری البائع بانه سوف یبیعه ان جاءه بالثمن ،فان هذا الوعد صحیح لازم علی البائع

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 583 Sep 21, 2021
kharid wa farokht k muamle me / mein baqi raqam na dene ki sorat me / mein advance li gai raqam ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.