resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: مشترکہ کاروبار سے الگ ہونے کے بعد پرانے گاہکوں سے معاملہ کرنا

(34610-No)

سوال: میرے بہنوئی نے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ کاروبار شروع کیا، ایک وقت ایسا آیا کہ میں بھی بغیر کسی سرمایہ کاری کے ان کے ساتھ پارٹنر بن گیا اور صرف اپنا وقت اور محنت دی، بعد میں میرے دوسرے بہنوئی نے پہلے بہنوئی سے رابطہ کیا اور درآمدات (imports) میں سہولت فراہم کرنے کے لئے اپنی کمپنی کا استعمال کرنے کی پیشکش کی، اور پھر کاروباری شراکت داری کی تجویز دی، انہوں نے مجھے کاروبار میں ملازمت کی پیشکش بھی کی، جو مجھے قابلِ قبول نہیں لگی۔
اُن کی شراکت داری کے دوران تمام کلائنٹس پہلے بہنوئی ہی لاتے رہے جبکہ دوسرے بہنوئی نے بہت کم سرمایہ لگایا۔ شراکت ختم ہونے کے بعددوسرے بہنوئی انہی کلائنٹس سے رابطہ کرنے لگے اور وہی مصنوعات کم قیمت پر فروخت کرنے لگے اور یہ دعویٰ کیا کہ چونکہ انہوں نے کاروبار میں امپورٹ کا عمل شروع کیا تھا اس لئے انہیں "مکمل حق" حاصل ہے، بعد ازاں پہلے بہنوئی نے مجھے دوبارہ شراکت کی دعوت دی اور اس بار میں نے مالی سرمایہ کاری بھی کی۔
میرا سوال یہ ہےکہ کیا دوسرے بہنوئی کی کمائی شرعی اعتبار سے جائز ہے؟ خصوصاً اس صورت میں کہ وہ ایسے کلائنٹس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جنہیں کسی اور نے محنت سے بنایا تھا، جبکہ ان کی اپنی شراکت میں سرمایہ کاری بہت کم تھی۔
اخلاقی نقطۂ نظر سے ان کے اس عمل کو اسلامی تعلیمات (دیانت، انصاف، اور کاروباری اخلاقیات) کے تناظر میں کیسے دیکھا جائے؟ میں اس معاملے میں ان کی کمائی کی شرعی حیثیت اور اخلاقی پہلو پر ایک تفصیلی فتویٰ کا طالب ہوں۔

جواب:
پوچھی گئی صورت میں اگر ایک شریک کاروبار سے علی الاعلان الگ ہوکر اپنی الگ حیثیت میں کسٹمرز سے رابطہ کرکے ان کے ساتھ نیا معاملہ کرے، پہلے کاروبار کے ساتھ گاہکوں کے کیے گیے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے تو اس کے کاروبار اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ناجائز یا حرام نہیں کہا جائے گا، بشرطیکہ اس کے ناجائز ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے، تاہم اس سلسلے میں ان (دونوں بہنوئیوں) کا اگر آپس میں کوئی جائز معاہدہ ہوا تھا تو اخلاقی طور پر اس معاہدہ کی پاسداری ضروری ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (107/6، 108، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله والسوم على سوم غيره) للحديث «لا يستام الرجل على سوم أخيه، ولا يخطب على خطبة أخيه» ، ولأن في ذلك إيحاشا وإضرارا، وهذا إذا تراضى المتعاقدان على مبلغ ثمن في المساومة فإذا لم يركن أحدهما على الآخر فهو بيع من يزيد، ولا بأس به على ما نذكره، وما ذكرناه محمل النهي في النكاح أيضا

سنن الترمذي: (باب ما ذکر عن النبي صلی اﷲ علیه و سلم في الصلح بین الناس، رقم الحدیث: 1352)
أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم: الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما، والمسلمون علی شروطهم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial