عنوان: ڈراپ شپنگ (drop shipping) اور ایمازون (Amazon) وغیرہ کے ذریعے آن لائن کاروبار کا حکم (8453-No)

سوال: کیا amazon اور aliexpress میں drop shipping کا کاروبار کرنا جائز ہے؟

جواب: ڈراپ شپنگ (drop shipping) اور ایمازون (Amazon) وغیرہ کے ذریعے آن لائن کاروبار کا عام طور پر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ فروخت کنندہ (seller) مختلف چیزوں (products) کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر لگاتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا شخص ان میں سے کسی چیز کو پسند کرنے کے بعد اس پر کلک (click) کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے، اور خریداری کا آرڈر دیتا ہے، پھر اس کے فراہم کے کردہ ایڈریس پر وہ چیز ڈلیور (deliver) کردی جاتی ہے۔
اس طریقہ کار میں فروخت کی جانے والی چیز (product) عموما فروخت کنندہ (seller) کی ملکیت میں نہیں ہوتی، فروخت کنندہ اپنے گاہک (customer) سے خریداری کا آرڈر پہلے وصول کر لیتا ہے، پھر بعد میں کسی کمپنی یا ہول سیلر سے وہ چیز خرید کر اپنے گاہک کو بھیج (deliver) دیتا ہے، نیز یہاں فروخت کی جانے والی چیز قبضہ سے پہلے بھی فروخت کردی جاتی ہے۔
جبکہ شریعت کی رو سے کسی ایسی چیز کو فروخت کرنا جائز نہیں، جو فروخت کرنے والے شخص کی ملکیت (ownership) اور قبضہ (possession) میں نہ ہو۔
لہذا جن چیزوں کا اسٹاک خود اس آن لائن اسٹور والے شخص کے پاس موجود ہو، اور وہ چیزیں اس کی ملکیت اور قبضے میں ہوں، تو ان چیزوں کو آرڈر ملنے پر بیچا جاسکتا ہے، مگر جو چیزیں اس کی ملکیت اور قبضہ میں نہ ہوں، تو ایسی چیزوں کے بارے میں پہلے فروختگی (sale) کا معاملہ حتمی (confirm) کر کے بعد میں مارکیٹ سے خرید کر اپنے کسٹمر کو ڈیلور کرنا شرعا درست نہیں۔
البتہ درج ذیل صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرلی جائے، تو یہ کاروبار جائز ہوسکتا ہے:
1) گاہک کو مطلوبہ چیز (Product) فروخت کرنے سے پہلے فروخت کنندہ (Seller) سے وہ چیز خرید لی جائے، خریدنے کے بعد اگر خود اپنے کسی وکیل (agent) کے ذریعے اس چیز پر قبضہ کرلے (قبضہ چاہے حسی ہو یا معنوی) اس کے بعد وہ اپنے کسٹمر کو وہ چیز فروخت کردے، تو اس طریقہ سے خرید و فروخت کا معاملہ درست ہوجائے گا۔
2) متعلقہ ہول سیلر یا کمپنی کا بروکر یا ایجنٹ بن کر اس کی چیز فروخت کردے، اور اس کا کام کے عوض طے شدہ رقم یا فیصد کے اعتبار سے کمیشن طے کرلیا جائے کہ فی آئٹم فروخت کرنے پر میرا اتنا کمیشن ہوگا، تو اس طریقہ سے بھی خرید و فروخت کا یہ معاملہ شرعا درست ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

السنن الكبري للبيهقي: (95/8، ط: دار الفكر)
عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَطْلُبُ مِنِّى الْبَيْعَ وَلَيْسَ عِنْدِى أَفَأَبِيعُهُ لَهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- :« لاَ تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.

بدائع الصنائع: (35/7، کتاب البیوع، فصل وأما الذی یرجع الی المعقود علیه)
وَمِنْهَا وهو شَرْطُ انْعِقَادِ الْبَيْعِ لِلْبَائِعِ أَنْ يَكُونَ مَمْلُوكًا لِلْبَائِعِ عِنْدَالْبَيْعِ فَإِنْ لم يَكُنْ لَا يَنْعَقِدْ وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدَ ذلك بِوَجْهٍ من الْوُجُوهِ إلَّا السَّلَمَ خَاصَّةً وَهَذَا بَيْعُ ما ليس عِنْدَهُ وَنَهَى رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم عن بَيْعِ ما ليس عِنْدَ الْإِنْسَانِ وَرَخَّصَ في السَّلَمِ۔۔۔(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض۔۔۔(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض.

فتح القدیر: (511/6، ط: دار الفکر)
(قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض۔۔۔أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه ورواه أحمد في مسنده وابن حبان

الدر المختار: (کتاب الإجارۃ، 5/6، ط: دار الفکر)
وشرطہا : کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین، لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ

کذا فی تبویب فتاوي دار العلوم کراتشي: رقم الفتوي: 73/3058

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 997 Sep 22, 2021
(drop shipping) or (amazon) aghaira k zarye online karobar / bussines ka hokom / hokum?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.