سوال:
اگر کوئی عورت کسی معقول عذر کی بناء پر اپنے شوہر سے خلع لینا چاہے اور لڑکا کورٹ کا نوٹس ملنے کے بعد بھی نہ آئے تو کیا جج کا خود ہی خلع کا فیصلہ کردینا شرعی اعتبار سے صحیح ہے؟
جواب: خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔
شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر اگر بیوی یکطرفہ خلع لے لے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوگا۔
ہاں! البتہ اگر شوہر کے ظلم وزیادتی کی وجہ سے کورٹ شرعی قوانین کے مطابق نکاح کی تنسیخ کردے تو کورٹ کا یہ فیصلہ معتبر ہوتا ہے۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں آپ کورٹ کے فیصلے کے تمام کاغذات لے کر دارالافتاء تشریف لائیں، کورٹ کے فیصلے کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی بتایا جاسکتا ہے کہ تنسیخ نکاح یا خلع میں سے کون سی صورت واقع ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
الفقه الإسلامي و أدلته: (7015/9، ط: دار الفکر)
وقد اعتبر الحنفية ركن الخلع هو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول.
الموسوعة الفقهیة الکویتیة: (321/41، ط: دار السلاسل)
ينتهي النكاح وتنفصم عقدته بأمور: منها ما يكون فسخا لعقد النكاح يرفعه من أصله أو يمنع بقاءه واستمراره، ومنها ما يكون طلاقا أو في حكمه.
تکملة فتح الملهم: (کتاب الطلاق قبیل باب تحریم طلاق الحائض، 134/1، ط: مکتبة دار العلوم کراتشي)
قد قصرت الشريعة الإسلامية حق الطلاق على الزوج، ولم يجعله بيد المرأة في الظروف العادية؛ لأن المرأة من طبيعتها الاستعجال في الأمور، فلو كان خيار الطلاق بيدها لكانت تقع الفرقة لأسباب بسيطة، وأغراض تافهة، ولكنها لم تسدد باب الفرقة من جهة المرأة بالكلية، وإنما أباحت لها ذلك في ظروف خاصة، فيمكن لها مثلاً: أن تعقد النكاح بشرط تفويض الطلاق إليها، ولو لم تشترط ذلك في العقد فلها أن تختلع من زوجها برضاه، وإن لم يكن ذلك فلها أن تطلب من القاضي فسخ النكاح إذا كان زوجها عنيناً، أو مجنوناً، أو متعنتاً، أو مفقوداً.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی