سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک عورت نماز روزہ کی مکمل پابند ہے، مگر اپنے شوہر کی بالکل عزت نہیں کرتی اور بات بات پر اسے ٹوکتی ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ اس عورت کا اپنے شوہر سے اس طرح کا برتاؤ رکھنا کیسا ہے؟
جواب: اللہ تعالى نے بیوی پر خاوند کی اطاعت فرض کی ہے، جب تک خاوند اسے اللہ کی معصیت کا حکم نہ دے، بیوی پر واجب ہے کہ وہ خاوند کی ہر بات مانے اور اس کے ہر حکم کو فورا بجا لائے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ»
(سنن النسائي: 3231)
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ عورتوں میں سے کونسی عورت بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ عورت کہ جب اسے اس کا خاوند دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب وہ اسے حکم دے تو یہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان اور مال کے بارے میں کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جو اس کے خاوند کو ناگوار ہو۔
خاوند کی نافرمانی اور حکم عدولی کی بناء پر عورتوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :
وَرَأَيْتُ النَّارَ، فَلَمْ أَرَ كَاليَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ» قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «بِكُفْرِهِنَّ» قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟ قَالَ: " يَكْفُرْنَ العَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ " (صحيح البخاري: 5197)
ترجمہ:
میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے۔
کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں , پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔
لیکن واضح رہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق میاں بیوی کے رشتے میں قانونی ضابطوں کے بجائے اخلاقی معیاروں کی پاسداری مطلوب ہے۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ اپنانے کی ٹھان لے تو نہ میاں کو بیوی سے شکوہ ہوگا اور نہ بیوی کو میاں سے۔
امام ذھبی کتاب الکبائر (ص: 179، ط دار الباز) میں لکھتے ہیں کہ روایت کیا گیا ہے
ایک شخص اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت کرنے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے گھر گیا، گھر کے اندر سے عورت کے عمر رضی اللہ عنہ کو ڈانٹنے کی مسلسل آواز آرہی تھی، جبکہ عمر رضی اللہ عنہ ساکت وخاموش کھڑے تھے، پلٹ کر کوئی جواب بھی نہیں دے رہے تھے، میں نے سوچا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ جو اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے مشہور ہیں اور امیر المؤمنین بھی ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ پھر میرا کیا حال ہوگا؟ تو میں واپس چل پڑا، اچانک عمر رضی اللہ عنہ گھر سے نکلے تو مجھے دیکھ کر پکارا کہ بھائی مجھ سے کوئی کام تھا؟ تو میں نے عرض کیا کہ جناب! میں اپنی بیوی کی بد اخلاقی اور زبان درازی کی شکایت کرنے آیا تھا، مگر آپ کے گھر کا حال بھی ویسا ہی دیکھا، تو پلٹ پڑا اور سوچ کر صبر کرلیا کہ اگر امیر المؤمنین کا حال یہ ہے تو پھر اپنی کوئی بات نہیں، فرمایا: بھتیجے میں یہ سب اس لیے برداشت کرتا ہوں کہ اس کے میرے اوپر بہت احسان ہیں، یہ میرے لیے سالن بناتی ہے، روٹی پکاتی ہے، کپڑے دھو دیتی ہے، میرے بچوں کو دودھ پلاتی ہے، اور ان میں سے کوئی کام اس پر واجب نہیں ہے، پھر میرا دل اس کے ذریعہ حرام سے بچتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے، اس لیے میں اس کی باتیں برداشت کرلیتا ہوں، آدمی نے کہا: امیر المؤمنین یہ سارے کام تو میری بیوی بھی کرتی ہے، تو آپ نے فرمایا: برداشت کرو بھائی! یہ تھوڑی سی مدت کا تو ساتھ ہے۔
امام ذھبی نے روایت نقل کی ہے:
وَقَالَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَيّمَا رجل صَبر على سوء خلق امْرَأَته أعطَاهُ الله الْأجر مثل مَا أعْطى أَيُّوب عَلَيْهِ السَّلَام على بلائه وَأَيّمَا امْرَأَة صبرت على سوء خلق زَوجهَا أَعْطَاهَا الله من الْأجر مثل مَا أعْطى آسِيَة بنت مُزَاحم امْرَأَة فِرْعَوْن۔
ترجمہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مرد اپنی عورت کی بد اخلاقی پر صبر کرتا ہے، اسے صبرِ ایوب جتنا اجر دیا جائے گا اور جو عورت اپنے شوہر کی بد خلقی کو برداشت کرے گی، اسے آسیہ زوجہ فرعون جتنا اجر ملے گا۔
اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ اپنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کتاب الکبائر للذھبی: (ص: 179، ط: دار الباز)
وَقد رُوِيَ أَن رجلاً جَاءَ إِلَى عمر رَضِي الله عَنهُ يشكو خلق زَوجته فَوقف على بَاب عمر ينْتَظر خُرُوجه فَسمع امْرَأَة عمر تستطيل عَلَيْهِ بلسانها وتخاصمه وَعمر سَاكِت لَا يرد عَلَيْهَا فَانْصَرف الرجل رَاجعا وَقَالَ إِن كَانَ هَذَا حَال عمر مَعَ شدته وصلابته وَهُوَ أَمِير الْمُؤمنِينَ فَكيف حَالي فَخرج عمر فَرَآهُ مولياً عَن بَابه فناداه وَقَالَ مَا حَاجَتك يَا رجل فَقَالَ يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ جِئْت أَشْكُو إِلَيْك سوء خلق امْرَأَتي واستطالتها عَليّ فَسمِعت زَوجتك كَذَلِك فَرَجَعت وَقلت إِذا كَانَ حَال أَمِير الْمُؤمنِينَ مَعَ زَوجته فَكيف حَالي فَقَالَ عمر يَا أخي إِنِّي احتملتها لحقوق لَهَا عَليّ إِنَّهَا طباخة لطعامي خبازة لخبزي غسالة لثيابي مُرْضِعَة لوَلَدي وَلَيْسَ ذَلِك كُله بِوَاجِب عَلَيْهَا ويسكن قلبِي بهَا عَن الْحَرَام فَأَنا أحتملها لذَلِك فَقَالَ الرجل يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ وَكَذَلِكَ زَوْجَتي قَالَ عمر فاحتملها يَا أخي فَإِنَّمَا هِيَ مُدَّة يسيرَة.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی