عنوان: عدالتی طلاق کا حکم(8480-No)

سوال: السلام علیکم، ایک مسلمان جوڑا جو غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں، نے آپس میں جدائیگی اختیار کرنی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ لوگ اس غیر مسلم ملک کی عدالت (غیر مسلم جج) کے ذریعے طلاق لیتے ہیں، تو اس طلاق کا شرعی حکم کیا ہوگا؟
کیا شوہر کے لئے زبانی طلاق دینا ضروری ہے یا صرف عدالتی طلاق کافی ہے؟

جواب: یاد رہے کہ شریعت میں طلاق دینے کا اصل اور مستقل اختیار مرد کو حاصل ہے، لیکن اگر مرد چاہے تو اپنا یہ اختیار جج کو دے سکتا ہے ، اِس کو فقہی اصطلاح میں ’’ تفویضِ طلاق ‘‘ کہا جاتا ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر خود زبانی طور پر اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا کوئی تحریر لکھ کر طلاق دیدے تو طلاق واقع ہو جائے گی، اسی طرح اگر شوہر جج کو اپنی طرف سے طلاق دینے کا اختیار دیدے،اور جج اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بیوی کو طلاق دیدے، تو بھی طلاق شرعاً واقع ہو جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

التنبيه على مشكلات الهداية لأبي العز الحنفي: (1326/3، ط: مکتبة الرشد)
والله تعالي جعل الطلاق بيد الزوج لا بيد المرأة رحمة منه وإحسانًا ومراعاة لمصلحة الزوجين، نعم له أن يملكها أمرها باختياره فيخيرها بين المقام معه والفراق.

رد المحتار: (314/3- 315، ط: دارالفکر، بیروت)
أي تفويضه للزوجة أو غيرها صريحا كان التفويض أو كناية، يقال: فوض له الأمر: أي رده إليه حموي، فالكناية قوله اختاري أو أمرك بيدك، والصريح قوله طلقي نفسك أبو السعود....المراد بالتفويض تمليك الطلاق

فتاویٰ دار العلوم زکریا: (273/4، ط: زمزم ببلشرز)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 714 Sep 26, 2021
adalti talaq ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.