سوال:
مفتی صاحب ! ایک صاحب کی اپنی بیوی سے ماموں سے کچھ ناچاقی ہوجانے کی وجہ سے بحث و تکرار ہورہی تھی، جھگڑے کے دوران انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو ماموں کے گھر گئی تو تجھے طلاق، اس واقعہ کو کئی سال ہوگئے ہیں، اب تک وہ ماموں کے گھر نہیں گئی ہے، اب ماموں نے اپنا پہلا گھر بیچ کر دوسرا گھر بنا لیا ہے تو کیا اس نئے گھر میں وہ عورت جاسکتی ہے؟ اگر جاتی ہے تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں عورت اگر شوہر کے ماموں کے نئے گھر میں بھی جائے گی، تب بھی اس پر طلاق واقع ہو جائے گی۔
کیونکہ شوہر نے طلاق کو "ماموں کے گھر" جانے پر معلق کیا ہے اور جس طرح سابقہ گھر کی نسبت ماموں کی طرف ہوتی تھی، اسی طرح نئے گھر کی نسبت بھی ان کی طرف ہوتی ہے، لہذا عورت اگر شوہر کے ماموں کے نئے گھر جائے گی، تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (فروع حلف لایساکن فلانا فساکنہ فی عرصۃ دار، 760/3، ط: دار الفکر)
(حلف لا يدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه) عرفا ولو تبعا أو بإعارة باعتبار عموم المجاز ومعناه كون محل الحقيقة فردا من أفراد المجاز.
(قوله أو بإعارة) أي لا فرق بين كون السكنى بالملك أو بالإجارة أو العارية.
(قوله باعتبار عموم المجاز إلخ) مرتبط بقوله يراد يعني أن الأصل في دار زيد أن يراد بها نسبة الملك، وقد أريد بها ما يشمل العارية ونحوها وفيه جمع بين الحقيقة والمجاز وهو لا يجوز عندنا. فأجاب بأنه من عموم المجاز بأن يراد به معنى عام يكون المعنى الحقيقي فردا من أفراده وهو نسبة السكنى: أي ما يسكنها زيد بملك أو عارية.
الھدایة: (243/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
وإذا أضاف الطلاق إلی النکاح وقع عقیب النکاح، مثل أن یقول لامرأة: إن تزوجتک فأنت طالق أو کل امرأة أتزوجہا فھی طالق۔
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144207201313
کذا فی فتاوی دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 154930
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی