سوال:
مفتی صاحب ! یہاں رائیونڈ میں جو لوگ تبلیغ پر آتے ہیں، ان کے پاس جب پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو گھڑی یا کوئی چیز بیچ کر جو کہ استعمال شدہ چیز ہوتی ہے، وہ دوکان دار کو کم ریٹ پر بیچ دیتے ھیں اور پھر کچھ نفع رکھ کر وہ دوکان دار آگے بیچ دیتا ہے تو مسئلہ یہ پوچھنا ھیکہ ایسی چیز جو کہ کسی نے مجبوری میں دوکان دار کو بیچی ہو وہ چیز ہم خرید سکتے ہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں اللہ کے راستے میں چلنے والا مہمان اگر اپنی کوئی مستعمل چیز فروخت کرتا ہے اور دوکاندار اسے خریدتا ہے تو اس میں کوئی حرج اور کراہت نہیں ہے، یہ شریعت کی اصطلاح میں 'بیع وضیعہ' کہلاتی ہے، یعنی اپنی چیز کو کم داموں پر فروخت کرنا اور ظاہر سی بات ہے کہ ہر آدمی اپنی چیز کسی غرض اور ضرورت ہی کی بناء پر فروخت کرتا ہے، اس میں اگر دیکھا جائے تو اس پر دوکاندار کا ایک طرح سے احسان بھی ہے کہ وہ اس کی چیز خرید کر اس کی ضرورت کو پورا کر رہا ہے اور اس کو بقول آپ کے ثمن مثل 'Market price' ادا کررہا ہے، لہذا دوکاندار کا اس سے چیز خریدنا اور پھر آپ کا دوکاندار سے نفع پر خریدنا بلا کراہت جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (135/5، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وبيع الوضيعة وهو المبادلة بمثل الثمن الأول مع نقصان شيء منه
الفتاوی الھندیۃ: (161/3، ط: دار الفکر)
ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی