سوال:
السلام عليكم، ہمارے ولد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور اس بات کو ایک مہینہ ہو چکا ہے، جو جاٸیداد انہوں نے چھوڑی ہے، وہ اب تک تقسیم نہیں ہو سکی، وجہ یہ ہے کہ کچھ پراپرٹی میں کاغذات مکمل نہیں ہیں، مگر جن کے کاغذات مکمل ہیں، ان کو بھی فروخت نھیں کیا جارہا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ شرعا جاٸیداد کی تقسیم کتنے دن میں ہو جانی چاہیے؟ اس کے علاوہ ہم پانچ بہنیں اور ایک بھاٸی ہیں، اگر پراپرٹی بیچنے کے لیے کسی ایک کو نامزد کرنا ہو، تو کس کو کریں اور کس طریقہ سے کریں؟
جواب: میراث کی تقسیم میں میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے٬ بلاعذر تاخیر کرنا درست نہیں ہے، لہذا تمام ورثاء پر لازم ہے کہ وہ ترکہ کو شرعی طریقہ کار کے مطابق جلد از جلد تقسیم کریں، تاکہ ہر صاحب حق کو اپنا حق مل جائے، تاہم مذکورہ صورت میں انتظامی امور کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے٬ تو اس کی گنجائش ہے٬ لیکن ان امور کو بھی حتی الامکان جلدی نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مشترکہ جائیداد کو بیچنے کے سلسلے میں ورثاء باہمی رضامندی سے کسی بھی وارث کو فرضی طور پر کاغذی کاروائی کیلئے نامزد کرسکتے ہیں٬ اور بہتر ہے کہ اس پر گواہ بھی بنالیے جائیں کہ فلاں وارث کو صرف کاغذی کاروائی کے سلسلے میں مالک نامزد کیا گیا ہے، تاکہ بعد میں کوئی نزاع کی نوبت پیش نہ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (260/6، ط: دار الفکر)
وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم و إلا لا.
واقعات المفتیین: (226، ط: المطبعۃ المیریۃ)
مات وترک امرأة بہا حبل، فإن کانت الولادة قریبة ینتظر لتقع القسمة عن علم، وإن لم تکن قریبة ینتظر لأن في ذلک تأخیرًا․
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی