سوال:
میں نے اپنے شوہر سے خلع کے لیے کورٹ میں کیس کیا ہوا ہے، کورٹ نے میرے شوہر کو سمن بھجوائے ہیں، مگر وہ آتے نہیں ہیں، اب کورٹ یکطرفہ خلع نامہ جاری کرنے والا ہے، کیا اس سے مجھ پر خلع واقع ہوجائے گا؟
جواب: واضح رہے کہ خلع بھی ایک مالی معاملہ ہے، جو جانبین کی رضامندی سے طے ہوتا ہے، لہذا شوہر کی رضامندی کے بغیرعدالت کا یکطرفہ خلع کا فیصلہ شرعا نافذ نہیں ہوگا اور وہ عورت بدستور اسی شوہر کے نکاح میں رہے گی۔
اگرعورت واقعی ظلم کا شکار ہے اور شوہر کسی طور پر عورت کی جان چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں، تو ایسی صورت میں عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کرے، پھر عدالت شرعی طریقے سے فیصلہ کرتے ہوئے تنسیخ نکاح کے ذریعے نکاح کو فسخ کردے، تو جائز ہے، ورنہ علاقے کی معتبر پنچائیت (جس میں کوئی ایک مستند عالم بھی موجود ہو) کے سامنے اس معاملے کو لے جائیں، وہ شرعی طریقہ سے فیصلہ کرکے اس عورت کی شوہر سے جان خلاصی کی کوشش کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 229)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَo
رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (7015/9، ط: دار الفکر)
وقد اعتبر الحنفية ركن الخلع هو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول
المبسوط للسرخسی: (173/6، ط: دار المعرفۃ)
(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.
کفایت المفتی: (151/6، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی