سوال:
ہمارے گھر میں بہت لڑائی جھگڑا رہتا ہے، میری عمر 26 سال ہے، میرے ماں باپ کا سلوک بیٹیوں کے ساتھ شروع سے اچھا نہیں ہے، مگر پھر بھی گزارا ہو رہا تھا، لیکن اب میری دو بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی ہے، اب وقت کے ساتھ ساتھ میرے والدین کا رویہ بگڑتا جارہا ہے، میرے ساتھ کوئی بھی ذمہ داری نہیں اٹھا رہے، کہتے ہیں کہ ہر چیز کے لئے اپنا کماؤ اور خریدو، اور نہ میری شادی کرتے ہیں اور جب بھی شادیکی ذمہ داری اٹھانے کا بولو تو لڑائی ہوجاتی ہے، میں ایک اسکول میں پڑھارہی ہوں، اور اپنا خرچہ اٹھارہی ہے، اس بارے میں آپ میری رہنمائی فرمادیں کہ والدین کا رویہ اپنی بیٹیوں سے صحیح ہوجائے اور وہ ان کی شادی بھی کروادیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: اولاد خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، اللہ پاک کی نعمت ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
"وہ جس کو چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملا جلا کر لڑکے بھی دیتا اور لڑکیاں بھی، اور جس کو چاہتا ہے، بانجھ بنا دیتا ہے، یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے، قدرت کا بھی مالک ہے۔" (سورۃ الشوری:49)
اسلام نے بیٹی کی پرورش کرنے اور ان کی شادی کرنے پر جنت کی بشارت سنائی ہے، حدیث شریف میں آتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے، اور آپ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
(سنن ترمذی:حدیث نمبر:1914)
ایک اور حدیث میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے تین بچیوں کی کفالت کی، انہیں ادب سکھایا، اور ان کی شادیاں کر دیں، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا، تو اس کے لیے جنت ہے۔
(سنن ابی داؤد: حدیث نمبر:5147)
ایک اور حدیث میں ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں تھیں، اس نے ان (بیٹیوں یا بہنوں) کی کفالت لی، اور ان کو ٹھکانہ دیا، اور ان پر رحم کیا، وہ جنت میں داخل ہوا، صحٓابہ کرام نے سوال کیا: ’’اگر کسی کی دو (بیٹیاں یا بہنیں) ہوں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’دو بیٹیوں کا بھی یہی حکم ہے‘‘
راوی کہتے ہیں کہ ہم نے گمان کیا کہ صحابہ کرام نے یہاں تک سوال کیا ’’اگر کسی کی ایک بیٹی ہو-
(جامع معمر بن راشد ، 10 /458)
لہذا آپ کے والد صاحب کو مذکورہ بشارت سننے کے بعد اس کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہیے، نیز غیرشادی شدہ لڑکیاں چاہے وہ بالغہ ہوں یا نابالغہ، جب تک ان کی شادی نہ ہو، اس وقت تک ان کا نفقہ (خرچہ) اور ان کی شادی کا ذمہ والد پر ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کریں، بصورت دیگر وہ اللہ کے سامنے اپنی ذمہ داری کے جوابدہ ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الشوری، الایۃ: 49)
"يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ،أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌo
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 5147، ط: دار ابن حزم)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْأَعْشَى، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُكْمِلٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بَشِيرٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَهُنَّ وَزَوَّجَهُنَّ وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، فَلَهُ الْجَنَّةُ .
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1914، ط: دار الحدیث)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ هُوَ الطَّنَافِسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الرَّاسِبِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ دَخَلْتُ أَنَا وَهُوَ الْجَنَّةَ كَهَاتَيْنِ وَأَشَارَ بِأُصْبُعَيْهِ
جامع معمر بن راشد: (رقم الحدیث: 19697، ط: المجلس العلمی، باکستان)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كُنَّ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ، فَكَفَلَهُنَّ، وَآوَاهُنَّ، وَرَحِمَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ»، قَالُوا: أَوِ اثْنَتَيْنِ؟ قَالَ: «أَوِ اثْنَتَيْنِ» ، قَالُوا: حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُمْ قَالُوا: أَوْ وَاحِدَةً؟
المبسوط: (223/5، ط: دار المعرفۃ)
وَاَلَّذِي قُلْنَا فِي الصِّغَارِ مِنْ الْأَوْلَادِ كَذَلِكَ فِي الْكِبَارِ إذَا كُنَّ إنَاثًا؛ لِأَنَّ النِّسَاءَ عَاجِزَاتٌ عَنْ الْكَسْبِ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی