سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی کو یہ لکھا کہ میں تم کو طلاق دیتا ہوں، اب تم آزاد ہو، کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ ابھی لڑکی کی رخصتی بھی نہیں ہوئی ہے، اگر طلاق ہوگئی ہے تو کیا لڑکی پر عدت کرنا بھی ہوگی؟
جواب: 1- اگر رخصتی یا خلوت صحیحہ (میاں بیوی کی تنہائی میں ملاقات) سے پہلے شوہر نے یہ تحریر لکھ کر بھیجی ہے کہ "میں تم کو طلاق دیتا ہوں، اب تم آزاد ہو"، تو ان دونوں جملوں سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے اور نکاح ختم ہوگیا ہے، نیز ایسی صورت میں عورت پر عدت گزارنا لازم نہیں ہے۔
البتہ اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں، تو دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا۔
نیز دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (باب طلاق غیر المدخول بھا، 286/3، ط: سعید)
"(وَإِنْ فَرَّقَ) بِوَصْفٍ أَوْ خَبَرٍ أَوْ جُمَلٍ بِعَطْفٍ أَوْ غَيْرِهِ (بَانَتْ بِالْأُولَى) لَا إلَى عِدَّةٍ (وَ) لِذَا (لَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ)"
الھدایۃ: (233/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
" وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها " لأن الوقاع مصدر محذوف لأن معناه طلاقا بائنا على ما بيناه فلم يكن قوله أنت طالق إيقاعا على حدة فيقعن جملة فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة " وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق لأن كل واحدة إيقاع على حدة إذا لم يذكر في آخر كلامه ما يغير صدره".
الفتاویٰ الھندیۃ: (526/1، ط: دار الفکر)
"أربع من النساء لا عدة عليهن: المطلقة قبل الدخول....الخ".
مختصر القدوری: (147/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
"ومن سمى مهرا عشرة فما زاد فعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها وإن طلقها قبل الدخول والخلوة فلها نصف المسمى".
الفتاویٰ الھندیۃ: (473/1، ط: دار الفکر)
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها۔۔۔الخ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی