سوال:
مفتی صاحب ! میں نے اپنے شوہر سے کورٹ کے ذریعے خلع لیا ہے اور میں حاملہ بھی ہوں، خلع ابھی ثابت نہیں ہوا ہے، میں اپنا خلع واپس لینا چاہتی ہوں، جبکہ کورٹ نے کیس ختم کردیا ہے، اب میں کیسے خلع واپس لوں؟ کیا مجھے نیا نکاح کرنا ہوگا؟
جواب: خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین (عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے۔
ذکرہ کردہ سوال میں اگر آپ نے شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر خلع لیا ہے، تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں ہے، اور آپ کا نکاح بدستور قائم ہے، اور اگر آپ نے شوہر کی اجازت اور رضامندی سے خلع لیا ہے، تو اس صورت میں ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، اب اگر آپ دونوں رجوع کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے لئے عدت میں یا عدت کے بعد باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ ایک طلاق واقع ہو جانے کے بعد شوہر کو اب صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (45/4، ط: دار المعرفۃ)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيقَةً بَائِنَةً.
رد المحتار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (7015/9، ط: دار الفکر)
وقد اعتبر الحنفية ركن الخلع هو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول
الھدایة: (257/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله.
الفتاوی الھندیہ: (472/1، ط: دار الفکر)
اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی العدۃوبعد انقضاءالعدۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی