سوال:
مفتی صاحب! ایلاء کا واقعہ کیا ہے؟ نیز کیا ایلاء کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ براہ کرم اس کی بھی رہنمائی فرما دیں۔
جواب: "ایلاء" زمانہ جاہلیت میں رائج قسم کا ایک طریقہ تھا، جس میں شوہر چند سالوں یا ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے قریب نہ جانے (صحبت نہ کرنے) کی قسم کھا لیتا، اس طرح خاتون معلّق ہو کر رہ جاتی اور اس کی حق تلفی ہوتی، اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کو تبدیل کرکے ایلاء کے لیے ایک مدت "چار ماہ" مقرر کر دی، لہذا اس حکم کے نازل ہونے کے بعد اب جو شخص چار ماہ یا اس سے زائد کی قسم کھالے تو اس کے پاس دو اختیار ہیں:
1) شوہر چار ماہ سے پہلے اپنی قسم توڑ دے اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردے، اس طرح وہ اپنی اس بیوی کے ساتھ ازدواجی زندگی اور تعلقات جاری رکھ سکتا ہے۔
2) یا شوہر قسم نہ توڑے یہاں تک کہ ایلاء کی مدت (چار ماہ) پوری ہو جائے، اس سے اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
ایلاء کا یہ حکم قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں نازل ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ o وَاِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌo (البقرۃ: 226)
ترجمہ:"جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں (یعنی ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالیتے ہیں) ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ چنانچہ اگر وہ (قسم توڑ کر) رُجوع کرلیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو (بھی) الله سننے جاننے والا ہے۔"
ایلاء کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر احادیث مبارکہ میں ملتا ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلاء کیا اور ان سے صحبت کو حرام کیا، پھر آپ نے حرام کو حلال کرلیا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کیا۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 1201)
اس واقعہ کی مزید وضاحت کے لیے شروحات حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورۃ البقرۃ، الآیة: 226)
"لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ o وَاِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌo
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1201 ط: دار الغرب الاسلامی)
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ وَحَرَّمَ، فَجَعَلَ الْحَرَامَ حَلَالًا، وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً۔
الدر المختار: (422/3، ط: سعید)
(هو) لغة اليمين. وشرعا (الحلف على ترك قربانها) مدته ولو ذميا (والمولي هو الذي لا يمكنه قربان امرأته إلا بشيء) مشق (يلزمه) إلا لمانع كفر...(وحكمه وقوع طلقة بائنة إن بر) ولم يطأ (و) لزم (الكفارة، أو الجزاء) المعلق (إن حنث) بالقربان.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی