سوال:
مفتی صاحب! اگر دودھ پیتا بچہ کپڑوں پر دودھ نکال دے، تو کیا نماز کے لیے کپڑے تبدیل کرنے ہوں گے یا نہیں؟
جواب: بچے کی قے (الٹی) منہ بھر کر ہو، تو اس کا حکم بڑے آدمی کی قے (الٹی) کی مانند ہوگا، یہ ناپاک ہے، اور اس کا حکم نجاست غلیظہ کا ہے، یعنی اگر یہ جسم یا کپڑے پر ایک درہم (ہتھیلی کے گہراؤ) کے برابر یا اس سے کم مقدار میں لگ جائے، اور ایسی صورت میں نماز پڑھ لی جائے، تو نماز ادا ہو جائے گی، اگرچہ مکروہ ہوگی۔
اور اگر اس قے (نجاست) کے پھیلاؤ کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہے، تو اس کو دھونا ضروری ہے، اس کو دھوئے بغیر نماز نہیں ہوگی۔
اور اگر قے (الٹی) منہ بھر کر نہ ہو، خواہ بالغ کی ہو یا نابالغ کی، تو وہ ناپاک نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (138/1، ط: دار الفکر)
(و) ينقضه (قيء ملأ فاه) بأن يضبط بتكلف۔۔۔وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه، هو الصحيح ؛ لمخالطة النجاسة۔۔۔الخ
الفتاوی الھندیۃ: (46/1، ط: دار الفکر)
وهي نوعان (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف . هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى والمثقال وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة يعتبر في كل زمان بدرهمه والصحيح الأول. هكذا في السراج الوهاج ناقلا عن الإيضاح۔۔۔الخ
کذا فی فتاوي بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 143902200020
تفھیم الفقہ: (71/2، مکتبۃ النور)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی