سوال:
السلام علیکم، میرا سوال ہے کہ بچے جب بالغ ہو جائیں تو والدین پر ان کو نماز اور دیگر دینی احکام پر کس حد تک تنبیہ کرنی یا ترغیب دینی لازم ہے؟ رہنمائی فرمائیں. جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت بچپن ہی سے کریں، اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں، بے جا لاڈ پیار سے بچوں کے اخلاق پر برا اثر پڑتا ہے، بچپن میں کی گئی تربیت بڑے ہو کر بھی نہیں بھولتی۔
چنانچہ بچوں کی تربیت میں حسب موقع نرمی وسختی دونوں پہلوؤں کو اختیار کیا جا سکتا ہے، لیکن ان دونوں باتوں میں اعتدال ہونا چاہیے، نہ غصہ میں بے قابو ہو کر بے حد مارنا ٹھیک ہے اور نہ ہی بالکل مار پیٹ کی نفی کرنا درست ہے، جس طرح نرمی ضروری ہے، اسی طرح مجبوری کی حالت میں تنبیہ کی غرض سے کبھی کبھار بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت بچوں کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے مار پیٹ کی سزا دینا بھی جائز ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"جب بچے سات سال کے ہوجائیں، تو ان کو نماز کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں، تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو"۔
(مصنف ابن ابی شیبہ)
اگر اولاد بالغ ہو اور شریعت کے احکام کی پابندی نہ کرے، تو ان کی تربیت بھی نرمی اور سختی دونوں طریقوں سے کی جا سکتی ہے، اگر ان کے باغی ہو جانے کا اندیشہ نہ ہو، تو بوقت ضرورت ڈانٹ ڈپٹ سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، لیکن چونکہ وہ شریعت کے احکام کے خود بھی مکلف ہوتے ہیں، اگر پابندی کریں گے، تو اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے اور نہ کرنے پر گناہ کے مرتکب قرار پائیں گے، لہذا انہیں خود ہی نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیے، اگر والدین اپنے سمجھانے اور تربیت کی ذمہ داری کو کما حقہ پورا کرلیں، اس کے باوجود اگر بچے دین پر چلنے کا اہتمام نہیں کرتے، تو آخرت میں والدین سے ان کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی۔
بالغ اولاد کو تنبیہ کرتے ہوئے حکمت سے کام لینا چاہیے، خاص طور پر موجودہ زمانے میں مشاھدہ یہ ہے کہ زیادہ مار پیٹ یا سب کے سامنے بڑے بچوں کو تنبیہ کرنے سے، وہ بچے باغی ہو جاتے ہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ محبت و اکرام کا معاملہ کیا جائے، اور وقتا فوقتا ان کو ہدایا وغیرہ بھی دیے جائیں، اور ان کی جائز ضروریات کا حد درجہ خیال رکھا جائے، تاکہ ان کے دل میں آپ کے لیے نرمی، قدر دانی اور احسان مندی کے جذبات برقرار رہ سکیں، اس کے ساتھ ساتھ ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کو تنہائی میں نرمی اور پیار کے ساتھ نیک کاموں کی ترغیب دیتے رہنا چاہیے، انہیں نیک ماحول فراہم کرنا چاہیے، وقتا فوقتاً بزرگوں کی مجلس میں لے کر جانا چاہیے اور ان کی نیک ہدایت کے لیے دعائیں بھی کرتے رہنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف ابن أبي شيبة: (رقم الحدیث: 3482، ط: مكتبة الرشد)
"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعاً، واضربوهم عليها إذا بلغوا عشراً، وفرقوا بينهم في المضاجع»".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی