عنوان: بچوں کی تربیت ماں کی ذمہ داری ہے یا باپ کی؟(8689-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب!
میرا سوال یہ ہے کہ بچوں (لڑکوں) کی تربیت کی ذمہ داری کس پر ہے؟ والد پر یا والدہ پر ؟
کیونکہ والدہ تو صرف گھر کے اندر ان کو دیکھ سکتی ہیں، گھر کے باہر مسجد لے جانا، ان کی بیٹھک کن بچوں کے ساتھ ہے، یہ چیک کیسے کریں؟ جبکہ میرے خاوند کا کہنا ہے کہ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ماں پر ہے، والد تو کمانے کے لئے ہے۔
جبکہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، اس میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
آپ اس کا شریعت کی رو سے جواب عطا فرمائیں۔جزاکم اللّٰہ خیراً

جواب: اللہ تعالیٰ کی طرف سے والدین کے دل میں اپنی اولاد کی محبت کا جذبہ فطری طور پر رکھا گیا ہے، اسی فطری جذبہ محبت سے سرشار ہو کر والدین اپنی اولاد کی بہتر سے بہتر پرورش، تعلیم و تربیت کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال دیتے ہیں، اس کے ساتھ ہی شریعت نے اولاد کی آخرت کی فکر اور ان کی دینی تربیت کے حوالے سے بھی والدین کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ اس میں کوتاہی پر آخرت میں ان سے باز پرس ہوگی، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
"حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " آگاہ رہو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) تم میں سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت و حکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے، اس کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے، اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس کو اس کے مال کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا ۔"
(مشکوۃ المصابیح: حدیث نمبر: 819)
ہماری شریعت نے مرد کو گھر کا سربراہ بنایا ہے، گھر کے تمام افراد کی کفالت و پرورش، ان کی دیکھ بھال، ان کی ضروریات پوری کرنا اسی کے ذمہ ہے، چنانچہ گھر والوں کی عمومی دینی اور اخلاقی تربیت بھی مرد کو سونپی گئی ہے، اس لحاظ سے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی بنیادی طور پر والد پر ہوتی ہے، تاہم اس ذمہ داری میں بیوی کو بھی بطور نائب معاون اس کے ساتھ شریک کیا گیا ہے، کیونکہ مرد کو روزگار کے سلسلے میں دن کا بیشتر حصہ گھر سے باہر گزارنا پڑتا ہے، اسے بچوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا زیادہ وقت نہیں ملتا، جبکہ عورت سارا دن گھر میں ہوتی ہے، اس لیے بچے اپنی والدہ کے پاس زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
لہذا بچوں کو دودھ پلانا، ان کی پرورش کرنا، عورت کی ذمہ داری ہے، وہ مرد کی ھدایات کے مطابق بچوں کی پرورش، تعلیم، اخلاق اور کردار کو سنوارتی ہے، اس لحاظ سے عورت پر بھی بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ہاں! جب والد گھر میں ہو، تو اسے چاہیے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا جائزہ لے، بیوی سے ان کے احوال معلوم کرے اور حسب ضرورت بچوں کے قابل اصلاح امور کی اصلاح کرے، ان کے متعلق ضروری ھدایات دے، تاکہ بچوں کو علم ہو کہ وہ آزاد نہیں ہیں، بلکہ ان سے باز پرس کی جاتی ہے، اسی طرح گھر کے باہر بچوں کی مصروفیات، ان کا اٹھنا، بیٹھنا، میل جول کن لوگوں کے ساتھ ہے، اس کی نگرانی کرنا اور وقتاً فوقتاً بچوں کی درسگاہ میں جا کر ان کی تعلیمی کارکردگی سے متعلق آگاہی لینا، یہ سب والد کی ذمہ داریاں ہیں، اسی طرح میاں بیوی دونوں کے اشتراکت عمل سے بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح البخاری: (بَابُ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا، رقم الحدیث: 5188)
حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن عبد الله، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" كلكم راع وكلكم مسئول، فالإمام راع وهو مسئول، والرجل راع على اهله وهو مسئول، والمراة راعية على بيت زوجها وهي مسئولة، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول، الا فكلكم راع وكلكم مسئول".

سنن ابی داؤد: (باب مَا يَلْزَمُ الإِمَامَ مِنْ حَقِّ الرَّعِيَّةِ، رقم الحدیث: 2928)
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، فالامير الذي على الناس راع عليهم وهو مسئول عنهم، والرجل راع على اهل بيته وهو مسئول عنهم، والمراة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1285 Oct 31, 2021

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.