سوال:
مفتی صاحب! ایک قادیانی لڑکی مسلمان ہوئی ہے، لیکن اس کے والدین قادیانیت پر ہی مرے ہیں، تو کیا اس لڑکی کو اپنے قادیانی والدین کی میراث سے حصہ ملے گا؟
جواب: واضح رہے کہ قادیانی مرتد ہیں، اور مرتد اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی میراث کے وارث نہیں بن سکتے، لہذا اگر قادیانی باپ کا انتقال ہوجائے اور اس کی بیٹی مسلمان ہو تو اسے قادیانی باپ کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا، بلکہ وہ میراث بیت المال میں جمع کرادی جائے گی اور بیت المال نہ ہونے کی صورت میں اس مال کو فقراء پر صدقہ کیا جائے گا۔ سنن ابن ماجہ میں ہے:جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا: "مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا، اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوتا ہے"۔(سنن ابن ماجہ، حديث نمبر:2729)
فتاوی حقانیہ(336/5) میں ہے:قادیانی اور مسلمان ایک دوسرے کی میراث کے حقدار نہیں بن سکتے۔۔۔ قادیانی مرتد کی میراث بیت المال میں داخل کی جائےگی، اسی طرح کوئی قادیانی کسی مسلمان کی میراث میں حقدار نہیں بن سکتا، بلکہ مسلمان کی میراث اس کے مسلمان ورثاء میں قاعدہ شرعی کے مطابق تقسیم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجة: (رقم الحديث: 2729، 911/2، ط: دار احياء الكتب العربية)
حدثنا هشام بن عمار، ومحمد بن الصباح قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن علي بن الحسين، عن عمرو بن عثمان، عن أسامة بن زيد، رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يرث المسلم الكافر، ولا الكافر المسلم»
الھندیۃ: (455/6، ط: دار الفکر)
المرتد لا يرث من مسلم ولا من مرتد مثله، كذا في المحيط.... فأما ما اكتسبه في حالة الردة فيكون فيئا يوضع في بيت المال.
و فیھا ایضاً: (254/2، ط: دار الفکر)
ويزول ملك المرتد عن ماله بردته زوالا موقوفا فإن أسلم عاد ملكه، وإن مات، أو قتل على ردته ورث كسب إسلامه وارثه المسلم بعد قضاء دين إسلامه، وكسب ردته فيء بعد قضاء ردته، وهذا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعندهما لا يزول ملكه، ثم اختلفت الروايات عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - فيمن يرث المرتد روى محمد عنه أنه يعتبر كونه وارثا عند موت المرتد، أو قتله، أو القضاء بلحاقه، وهي الأصح
و فیھا ایضاً: (454/6، ط: دار الفکر)
واختلاف الدين أيضا يمنع الإرث والمراد به الاختلاف بين الإسلام والكفر.
احسن الفتاویٰ: (357/6، ط: دار الاشاعت)
فتاوی ختم نبوت: (384/1، ط: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی