سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! پوچھنا یہ ہے کہ زید کا انتقال ہوا، ورثاء میں بیوہ، تین بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں، ایک بیٹے نے کل مال کے چار حصے کر کے چاروں بیٹوں کو ایک ایک حصہ جو کہ زمین جائیداد کی صورت میں تھا، تقسیم کر دیا، ان میں سے ایک بیٹا اب یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے حصہ میں سے والدہ اور بہنوں کو ان کا حق دے دوں، اس کی تقسیم کی کیا صورت ہوگی؟ اور اگر مال چار کروڑ ہو، تو تقسیم کی کیا صورت ہوگی؟
جواب: (1) سوال میں پوچھی گئی صورت میں ذکر کردہ تقسیم غیر شرعی ہے، لہٰذا چاروں بیٹوں کو چاہیے کہ وہ مکمل ترکہ ازسرِ نو شرعی طریقہ سے تقسیم کریں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو، تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو اٹھاسی (88) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو گیارہ (11)، چار بیٹوں میں سے ہر ایک کو چودہ (14) اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اس تقسیم کی رو سے چار کروڑ (40000000) میں سے بیوہ کو پچاس لاکھ (5000000)، چار بیٹوں میں سے ہر ایک کو تریسٹھ لاکھ تریسٹھ ہزار چھ سو چھتیس روپے اور چھتیس پیسے (6363636.36) اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو اکتیس لاکھ اکیاسی ہزار آٹھ سو اٹھارہ روپے اور اٹھارہ پیسے (3181818.18) ملیں گے۔
(2) صورت مذکورہ میں والدہ اور بہنوں کو حصہ دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اوپر ذکر کردہ طریقہ تقسیم کے مطابق بیٹے کے پاس جتنا حصہ زیادہ بن رہا ہے ،وہ والدہ اور بہنوں میں شرعی تناسب سے تقسیم کردے،اور باقی تینوں بیٹوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی زائد حصہ والدہ اور بہنوں میں شرعی تناسب سے تقسیم کر دیں، ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔
حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کی) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔ (مشکوۃ:254/1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآية: 29)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایۃ: 11)
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ....الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایۃ: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ.... الخ
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين».
و فیھا ایضاً: (باب الوصایا، 266/1، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة».
بدائع الصنائع: (کتاب القسمۃ، فصل فی صفات القسمۃ، 26/7)
وأما صفات القسمۃ فأنواع منہا أن تکون القسمۃ عادلۃ غیر جائرۃ وہی الی ان قال فإذا وقعت جائرۃ لم یوجد التراضی ولا إفراز نصیبہ بکمالہ لبقاء الشرکۃ فی البعض فلم تجز وتعاد۔وعلی ہذا إذا ظہر الغلط فی القسمۃ المبادلۃ بالبینۃ أو بالإقرار تستأنف لأنہ ظہر أنہ لم یستوف حقہ فظہر أن معنی القسمۃ لم یتحقق بکمالہ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی