سوال:
میری والدہ کو ان کے والد کی طرف سے ایک ملین روپے کا حصہ ملا، جس کے بدلے میری والدہ کو کچھ جائیداد دے دی گئی، جبکہ والدہ نے اسے اپنی سات اولاد میں شیئر کا فیصلہ کیا۔
ہم چار بہنیں اور تین بھائی ہیں، بھائیوں نے ہر بہن کو اس کے حصے کے بدلے ایک لاکھ روپے دیے اور جائیداد آپس میں تقسیم کرلی۔
اب ہمیں لگ رہا ہے کہ جائیداد کی اصل قیمت دس لاکھ سے زائد ہے، تو کیا اب از سر نو تقسیم ہوگی یا نہیں؟ نیز والدہ نے زندگی ہی میں جائیداد کا قبضہ بیٹوں کو دے دیا تھا۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر بہنوں نے پہلی تقسیم پر رضامندی ظاہر کردی تھی، جائیداد میں اپنے حصے کے بدلے ایک لاکھ روپے بخوشی قبول کرلیے تھے، اور اس سلسلے میں ان پر کسی قسم کی کوئی (اخلاقی یا معاشرتی) زبردستی یا دباؤ وغیرہ نہیں ڈالا گیا تھا، تو یہ تقسیم شرعاً معتبر ہے، اب ان کی طرف سے دوبارہ تقسیم کا مطالبہ درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایہ: (420/4، ط: مکتبہ رحمانیہ)
و لو اختلفا فی التقویم لم یلتفت الیہ، لانہ دعویٰ الغبن و لا معتبر بہ فی البیع، فکذا فی القسمۃ لوجود التراضی۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی