عنوان: نكاح ميں کفو یعنی ذات اور برادرى کا لحاظ کرنے کى شرعى حیثیت(8798-No)

سوال: مفتی صاحب ! میں نے ایک جگہ رشتہ بھیجا ہے، انہوں نے یہ کہہ کر رشتہ دینے سے انکار کردیا ہے کہ آپ لوگ نیچ ذات ہو، اور حدیث میں نیچ ذات کے ساتھ رشتہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
براہ کرم آپ سے درخواست ہے کہ آپ یہ بتادیں کی کیا واقعی حدیث میں نیچ ذات سے رشتہ کرنے سے منع کیا گیا ہے؟

جواب: جواب سے قبل چند باتوں کا سمجھنا ضرورى ہے:

1- واضح رہے کہ اسلام کى نظر میں تمام انسان برابر ہیں، بحیثیت انسان کسى کو دوسرے پر فوقیت اور فضیلت حاصل نہیں ہے، ذات و برادرى، رنگ و نسل ، قوم و قبیلہ اور وطن وغیرہ یہ سارى نسبتیں باہمى تعارف کے عنوانات ہیں، اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک عزت اور شرافت کا معیار صرف تقوى ہے، لہذا جو شخص احکام شریعت کا پابند اور اللہ تعالى سے زیادہ ڈرنے والا ہوگا، وہى اللہ تعالیٰ كے ہاں زیادہ عزت والا ہوگا، چنانچہ ارشاد بارى تعالى ہے:
اے لوگو! حقیقت یہ ہےکہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کى پہچان کر سکو، در حقیقت اللہ کے نزدیک تم ميں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ متقى ہو، یقین رکھو کہ اللہ تعالى سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔ (سورۃ الحجرات : 13)
ارشاد نبوى صلى الله عليہ وسلم ہے:
"اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ، تمہارا رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے، کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں، اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے، سوائے تقویٰ کے"۔
(مسند أحمد:حدیث نمبر: 23489)
لہذا خاندان، برادرى اور مال داری کى وجہ سے کسی ادنى مسلمان کو حقیر اور كم تر سمجھنا جائز نہیں ہے۔
2- عقد نکاح کے نتیجے میں مرد و عورت کے درمیان جو تعلق قائم ہوتا ہے، وہ کچھ عرصے کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ یہ تعلق ساری زندگی کے لیے ہوتا ہے، اس لیے اس رشتے کو دیرپا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان مزاج اور طبیعت کی نہ صرف ہم آہنگی ہو، بلکہ دونوں میں محبت و مودت ہو، تاکہ ان کی زندگی خوش گوار گزرے، دوسری طرف عموماً یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دو مختلف قوموں اور برادریوں کے لوگوں میں فطری طور پر طبیعتوں اور مزاجوں میں موافقت کم ہی ہوتی ہے، یہ مزاجوں کی عدم موافقت آگے چل کر باہمی نزاع کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے اسلام جو کہ دین فطرت ہے، اس نے انسان کے ان جذبات کا بھی خیال کیا ہے، چنانچہ رشتے کے دونوں فریق (میاں بیوی) کے درمیان مثالی اور دیر پا تعلق کی مصلحت کے پیش نظر "کفو" (ہمسری) کا اعتبار کیا گیا ہے۔
"کفو" کا معنی ہے: برابری۔ یعنی لڑکی کا شوہر نسب، خاندانی شرافت، دین داری، پیشے اور مال کے لحاظ سے اس کے ہم پلہ اور برابر ہو، ورنہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بے جوڑ رشتہ کی وجہ سے میاں بیوی میں اور ان کی وجہ سے دونوں خاندانوں میں تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں طلاق یا خلع کے ذریعے جدائی ہو جاتی ہے، ہماری شریعت کی تعلیمات یہ ہیں کہ یہ رشتہ پائیدار اور مستحکم رہے، اس مصلحت کے پیش نظر رشتوں میں عمر ،خاندان، دینداری، مال اور پیشوں میں "کفو" (ہمسری) کا اعتبار کیا گیا ہے، چنانچہ لڑکى کے سرپرستوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اس کے لیے اچھے شوہر کا انتخاب کریں۔
اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں جو ھدایات آئی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
١- سنن الترمذی میں ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہہ سے ارشاد فرمایا: اے علی! "تین چیزوں میں تاخیر مت کرو: جب نماز کا وقت ہوجائے، (تو نماز کی ادائیگی میں تاخیر مت کرو)، جب جنازہ تیار ہو جائے، (تو جنازہ کی ادائیگی میں تاخیر مت کرو) اور جب لڑکی کے جوڑ کا رشتہ مل جائے، تو اس کے نکاح میں تاخیر مت کرو"۔
(سنن الترمذي: حدیث نمبر: 171))
٢- سنن الدارقطنی میں ہے:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عورتوں کا نکاح ان کے ہم پلہ مردوں کے ساتھ کرواؤ اور ان کا رشتہ ان کے سرپرست کروائیں اور دس درہم سے کم مہر نہیں ہے"۔
(سنن الدارقطني:حدیث نمبر:3601)
حلية الأولياء کى حدیث ہے: (7/ 140)
3-حضرت زبير بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کوئى ایک جاتا ہے اور اپنى بیٹى کا نکاح بہت ہی بدصورت شخص سے کرا دیتا ہے، بلاشبہ یہ عورتیں بھى وہى چاہتى ہیں، جو تم چاہتے ہو"۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ رنگ، نسب اور برادری کی وجہ سے کسی انسان کا دوسرے کو حقیر سمجھنا، جائز نہیں ہے، البتہ شریعت نے نکاح کے معاملے میں میاں بیوى کے باہمى تعلقات میں خوشگوارى اور پائیدارى کى مصلحت کے پیش نظر میاں بیوى میں، عمر، خاندان، مالدارى، دیندارى اور پیشے کى برابرى کى تعلیم دى ہے، اس مصلحت کے پیش نظر اگر رشتے کا پیغام بھیجنے والے کو اچھے طریقے سے معذرت کر لى جائے، تو اس کى شرعاً اجازت ہے، لیکن اپنى خاندانى اور برادرى کى بڑائى کى وجہ سے اس کو حقیر اور کم تر سمجھنا گناہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مسند أحمد: (رقم الحدیث: 23489)
حدثنا إسماعيل، حدثنا سعيد الجريري، عن أبي نضرة، حدثني من سمع خطبة رسول الله صلى الله عليه وسلم في وسط أيام التشريق فقال: " يا أيها الناس، ألا إن ربكم واحد، وإن أباكم واحد، ألا لا فضل لعربي على عجمي ، ولا لعجمي على عربي، ولا أحمر على أسود، ولا أسود على أحمر، إلا بالتقوى أبلغت ".

سنن الدار قطني: (رقم الحدیث: 3601)
نا أحمد بن عيسى بن السكين البلدي , نا زكريا بن الحكم الذسعني , نا أبو المغيرة عبد القدوس بن الحجاج, نا مبشر بن عبيد, حدثني الحجاج بن أرطاة, عن عطاء, وعمرو بن دينار, عن جابر بن عبد الله, قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنكحوا النساء إلا الأكفاء، ولا يزوجهن إلا الأولياء, ولا مهر دون عشرة دراهم». مبشر بن عبيد متروك الحديث أحاديثه لا يتابع عليها

سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 171)
حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت لها كفئا.

سنن ابن ماجة: (رقم الحدیث: 1968، 141/3، ط: دار الرسالة العالمية)
حدثنا عبد الله بن سعيد ، قال : حدثنا الحارث بن عمران الجعفري ، عن هشام بن عروة ، عن أبيه ، عن عائشة ، قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : تخيروا لنطفكم، وانكحوا الأكفاء، وأنكحوا إليهم".

مسند البزار: (رقم الحدیث: 2677)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي الْجَوْنِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَوْرٌ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْعَرَبُ بَعْضُهَا أَكْفَاءٌ لِبَعْضٍ، وَالْمَوَالِي بَعْضُهُمْ أَكْفَاءٌ لِبَعْضٍ».

حلية الأولياء و طبقات الأصفياء: (140/7)
حدثنا عمر بن أحمد بن عمر القاضي، ثنا جبير بن محمد الواسطي، ثنا زكريا بن يحيى بن موسى الأكفاني، ثنا قبيصة، ثنا سفيان، ثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن الزبير بن العوام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يعمد أحدكم إلى ابنته فيزوجها القبيح الذميم إنهن يردن ما تريدون» غريب من حديث الثوري , لم نكتبه إلا من حديث جبير , أفادنيه عنه أبو الحسن الدارقطني.

الموسوعة الفقهية الكويتية: (266/34)
"١-الْكَفَاءَةُ لُغَةً: الْمُمَاثَلَةُ وَالْمُسَاوَاةُ، يُقَال: كَافَأَ فُلاَنٌ فُلاَنًا مُكَافَأَةً وَكِفَاءً وَهَذَا كِفَاءُ هَذَا وَكُفْؤُهُ: أَيْ مِثْلُهُ، يَكُونُ هَذَا فِي كُل شَيْءٍ، وَفُلاَنٌ كُفْءُ فُلاَنَةَ: إِذَا كَانَ يَصْلُحُ بَعْلاً لَهَا، وَالْجَمْعُ أَكْفَاءٌ... فَفِي النِّكَاحِ: عَرَّفَهَا الْحَنَفِيَّةُ بِأَنَّهَا مُسَاوَاةٌ مَخْصُوصَةٌ بَيْنَ الرَّجُل وَالْمَرْأَةِ".

الھندیة: (290/1- 291)
"الْكَفَاءَةُ تُعْتَبَرُ فِي أَشْيَاءَ (مِنْهَا النَّسَبُ)...(وَمِنْهَا إسْلَامُ الْآبَاءِ)... (وَمِنْهَا الْحُرِّيَّةُ)... (وَمِنْهَا الْكَفَاءَةُ فِي الْمَالِ)...(وَمِنْهَا الدَّيَّانَةُ)...(وَمِنْهَا الْحِرْفَةُ)".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 721 Nov 19, 2021
nikah may / mein kfu / kafu / kofo yani zat or baradri ka lihaz karne ki shari / sharai hesiat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.