سوال:
ہمارے گاؤں میں رواج ہے کہ مغرب کی اذان کے قریب اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت اللہ کے نیک فرشتے آتے ہیں، ہم ان کے لیے اس لیے دروازے کھولتے ہیں تاکہ وہ فرشتے گھر میں داخل ہوسکیں۔ شریعت میں اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: مغرب کے وقت گھروں کے دروازے کھولنا تاکہ فرشتے گھر میں داخل ہو جائیں" اس مضمون کى روایت ہمارى نظر سے نہیں گزرى، بلکہ حديث شريف ميں تو اس کے برعکس ہدایات دی گئى ہیں،
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "شام کے وقت برتنوں کو ڈھانپ لو، مشکیزوں کا منہ بند کردو، دروازے بند کر دو اور بچوں کو باہر جانے سے روک دو، کیونکہ اس وقت شیاطین اور جنات کے پھیلنےاور اچکنے کا وقت ہوتا ہے اور سونے کے وقت چراغ بجھا دیا کرو، کیونکہ چھوٹی چوہیا چراغ کى بتى کو لے کر گھر والوں کو جلا دیتى ہے۔ (شعب الإيمان، حديث نمبر:5661) لہذا مغرب کے وقت بچوں کو بلا ضرورت گھر سے باہر جانے سے روکنا چاہیے اور دروازے کھڑکیاں بھی بند کر دینی چاہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 5623)
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ، أَوْ أَمْسَيْتُمْ، فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ، فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ، فَإِذَا ذَهَبَ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ فَحُلُّوهُمْ، فَأَغْلِقُوا الأَبْوَابَ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَيَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا، وَأَوْكُوا قِرَبَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، وَخَمِّرُوا آنِيَتَكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ، وَلَوْ أَنْ تَعْرُضُوا عَلَيْهَا شَيْئًا، وَأَطْفِئُوا مَصَابِيحَكُمْ».
شعب الإيمان: (رقم الحديث: 5661)
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله بن أحمد بن أمية السباق، ثنا محمد بن أيوب، أنا مسدد، ثنا حماد بن زيد، عن كثير بن شنظير، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله، رفعه قال: " خمروا الآنية وأوكوا الأسقية وأجيفوا الأبواب وكفوا صبيانكم عند المساء فإن للجن انتشارا وخطفة، وأطفئوا المصابيح عند الرقاد ،فإن الفويسقة ربما أخذت الفتيلة فأحرقت أهل البيت " رواه البخاري في الصحيح، عن مسدد
عمدة القاري: (174/15)
"فإن قلت: ما حكم أوامر هذا الباب؟ قلت: جميعها من باب الإرشاد إلى المصلحة الدنيوية، كقوله تعالى: {واشهدوا إذا تبايعتم} (البقرة: 282) . وليس على الإيجاب، وغايته أن يكون من باب الندب، بل قد جعله كثير من الأصوليين قسما منفردا بنفسه عن الوجوب والندب، وينبغي للمرء أن يمتثل أمره، فمن امتثل أمره سلم من الضرر بحول الله وقوته، ومتى والعياذ بالله خالف إن كان عنادا خلد فاعله في النار، وإن كان عن خطأ أو غلط فلايحرم شرب ما في الإناء أو أكله".
شرح الامام لابن دقیق العید: (559/2)
"السابعۃ و الاربعون : ھذہ الاوامر التی اوردت فی ھذا الحدیث، لم یحملہا الاکثرون علی الوجوب".
فیض القدیر للشوکانی: (423/1)
"(فکفوا صبیانکم) ضموھم وامنعوھم من الخروج ندبا".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی