سوال:
کیا دوسرے آدمی کے پیسوں سے حج ادا کرنے والے بندے کے ذمے سے فرض حج ساقط ہوجاتا ہے اور اس بندے کو حج ادا کرنے کا ثواب ملے گا؟ اور کیا پیسے دینے والے کو بھی ثواب ملے گا؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر وہ شخص آپ کو یہ پیسے بطور ہدیہ (گفٹ) دے رہا ہے، تو ان پیسوں پر قبضہ کرنے کے بعد آپ ان پیسوں کے مالک بن جائیں گے، اور ان پیسوں کے ذریعے حج ادا کرنے سے آپ پر سے حج کی فرضیت ساقط ہوجائے گی اور آپ کو اس حج پر ثواب بھی ملے گا۔
مزید یہ کہ جس شخص نے آپ کو یہ پیسے ہدیہ کیے ہیں اور حج کرنے میں آپ کی مدد اور معاونت کی ہے، اس معاونت کرنے والے کو بھی معاونت کرنے کا اجر وثواب ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الایۃ: 2)
وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی، وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo
الفتاوی الھندیۃ: (217/1، ط: دار الفکر)
(ومنها القدرة على الزاد والراحلة) بطريق الملك أو الإجارة دون الإعارة والإباحة سواء كانت الإباحة من جهة من لا منة له عليه كالوالدين والمولودين أو من غيرهم كالأجانب كذا في السراج الوهاج، ولو وهب له مال ليحج به لا يجب عليه قبوله سواء كان الواهب ممن تعتبر منته كالأجانب أو لا تعتبر كالأبوين والمولودين كذا في فتح القدير وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي....االفقير إذا حج ماشيا ثم أيسر لا حج عليه هكذا في فتاوى قاضي خان.
و فیھا ایضاً: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنھا: ان یکون الموھوب مقبوضا حتی لا یثبت الملک للموھوب لہ قبل القبض.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی