سوال:
السلام علیکم مفتی صاحب! اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے غصہ میں یہ کہے دے کہ"دفع ہوجاؤ اِدھر سے" اور بیوی نہ جائے تو طلاق ہوجائے گی یا نہیں؟ نیز شوہر نے اس سے طلاق کی نیت کی تھی یا نہیں، اس کا بھی معلوم نہیں ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر شوہر نے بیوی کو "دفع ہوجاؤ" کہنے سے طلاق دینے کی نیت کی ہو، تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے، اور اگر شوہر نے طلاق دینے کی نیت نہ کی ہو، تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (298/3، ط: دار الفکر)
الكنايات ( لا تطلق بها )قضاء ( إلا بنية أو دلالة الحال ) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب فالحالات ثلاث رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب أو لا ولا ( فنحو اخرجي واذهبي وقومي ) ۔۔۔ ( يحتمل ردا) ۔۔۔ ( وفي الغضب ) توقف (الأولان ) إن نوى وقع وإلا لا.
نجم الفتاوی: (169/6)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی