سوال:
محترم مفتی صاحب ! میں ایک سرجن ہوں، بعض آپریشنوں میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور وہ بھی اس نوعیت کے کہ اس Operation theatre سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا اور آپریشن کے درمیان کپڑوں پر خون بھی لگ جاتا ہے اور اگر آپریشن درمیان میں چھوڑ دیں اور نماز میں مشغول ہو جائیں تو بعض اوقات مریض کو جانی نقصان کا غالب گمان ہوتا ہے، اس صورت میں نماز کا وقت آجائے تو نماز کا کیا مسئلہ ہوگا؟
جواب: آپ کو چاہیے کہ جہاں تک آپ کا اختیار ہے، نماز کا انتظام کریں، تاکہ نماز وقت کے اندر ادا کی جا سکے، مثلاً: ایک سرجن نماز پڑھے، دوسرا آپریشن کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو اور مریض کو جانی نقصان پہنچنے کا غالب گمان ہو تو پھر گنجائش ہے کہ آپ ایک نماز آخری وقت میں ادا کریں اور دوسری نماز پہلے وقت میں پڑھ لیں، البتہ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو نماز موخر کرلیں اور جب وقت ملے، اس کو پڑھ لیں، امید ہے کہ جان بچانے کے عذر کی وجہ سے گناہ نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الایۃ: 238)
حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی وَ قُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَo
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیة: (186/7، ط: دار السلاسل)
لا يعلم خلاف بين الفقهاء في أن تأخير الصلاة عن وقتها بدون عذر ذنب عظيم، لا يرفع إلا بالتوبة والندم على ما فرط من العبد، وقد سمى النبي صلى الله عليه وسلم من فعل ذلك بأنه مفرط أي مقصر، حيث قال: ليس التفريط في النوم، إنما التفريط في اليقظة
المحیط البرھانی: (276/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
الجمع بين الصلاتين فعلا لعذر المطر جائز إحرازا لفضيلة الجماعة، وذلك بتأخير الظهر وتعجيل العصر، وتأخير المغرب وتعجيل العشاء
و فیہ ایضاً: (45/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ويجوز للمسافر الجمع بين الصلاتين لعذر السفر بأن يؤخر الأول، ويعجل الثاني
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی