عنوان: بڑھاپے کی وجہ سے ذہول اور نسیان والی مریضہ کے مال میں زکوۃ اور دیگر تصرفات کے احکام(8933-No)

سوال: السلام علیکم، ایک صاحبہ ہیں، جن کا دماغ اس قدر کمزور ہے کہ بات میں کوئی ربط نہیں، اسی طرح نماز پڑھنے کے بعد ان کو یاد نہیں رہتا کہ پڑھی ہے یا نہیں، پیسوں کا حساب کتاب بھی نہیں کرسکتیں، جبکہ وہ صاحب نصاب بھی ہیں۔ اس تناظر میں درج ذیل باتوں کا جواب مرحمت فرمائیں: ان پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ اگر واجب ہے تو اس کی ادائیگی کس طرح کی جائے گی؟
ان کے مال میں سے ان کے علاج پر خرچ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
اسی طرح ان کے مال کو کہیں انویسٹ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
تنقیح :
محترم آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ سوال میں ذکر کردہ مریضہ کی یہ حالت پورے سال رہتی ہے یا اس سے کبھی افاقہ ہوتا ہے؟ اگر کبھی کبھار افاقہ ہوتا ہے تو کس حد تک؟ نیز یہ بھی واضح کردیں کہ مریضہ کی یہ حالت پیدائش سے ہے یا پہلے ٹھیک تھی، پھر بعد میں مرض لاحق ہوا ہے؟
اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جواب تنقیح:
وعلیکم السلام،
یہ حالت پیدائشی نہیں ہے، بڑھاپے کے باعث اب ہوئی ہے، جنون نہیں ہے، بلکہ ذہول اور نسیان کہا جائے تو مناسب ہے، اب یہ ذہول اور نسیان کی کیفیت مستقل رہتی ہے، مگر اس کیفیت میں افاقہ یہ ہی ہے کہ کچھ کچھ چیزیں کبھی کبھی یاد آجاتی ہیں اور کبھی بھول جاتی ہیں۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ مریضہ کو کبھی کبھار افاقہ ہوتا ہے، اور اس کا مرض دائمی نہیں ہے، لہذا اس کے مال سے زکوۃ کی ادائیگی احتیاطاً واجب ہے، جو کہ مریضہ کی ملکیت کے کل مال (سونا، چاندی، مال تجارت اور نقدی رقم) کے مجموعہ سے ڈھائی فیصد ادا کی جائے گی۔
واضح رہے کہ مریضہ کے علاج و معالجہ کے لیے اس کے مال میں سے ضرورت کے مطابق اس پر خرچ کرنا جائز ہے، البتہ مذکورہ مریضہ کا مال کسی تجارت میں لگانے کا اختیار صرف مریضہ کے باپ یا باپ کے وصی (جس کو مریضہ کے باپ نے اپنی زندگی میں اس کے موت کے بعد مریضہ کی دیکھ بھال اور مالی معاملات کی ذمہ داری کے لیے مقرر کیا ہو) یا ان دونوں کے نہ ہونے کی صورت میں مریضہ کے دادا کو حاصل ہے، ان کے علاوہ کسی اور رشتہ دار کے لیے مریضہ کا مال تجارت میں لگانا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 5)
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًاO

البحر الرائق: (کتاب الزکاۃ، 218/2، ط: دار الكتاب الاسلامي)
وأما الطارئ، فإن دام سنة كاملة فهو في حكم الأصلي، وإن كان في بعض السنة ثم أفاق فعن محمد وجوبها وإن أفاق ساعة، وعنه إن أفاق أكثر السنة وجبت وإلا فلا. اه.
وظاهر الرواية قول محمد كما في الهداية وغيرها والمغمى عليه كالصحيح كما في المجتبى۔
(قوله فعن محمد وجوبها إلخ) الذي في البدائع هكذا، وإن كان ساعة من الحول من أوله أو وسطه أو آخره يجب زكاة ذلك الحول، وهو قول محمد، ورواية ابن سماعة عن أبي يوسف، وفي رواية هشام عنه إن أفاق أكثر السنة وجب وإلا فلا اه.
وفي الهداية ولو أفاق في بعض السنة فهي بمنزلة إفاقته في بعض الشهر في الصوم، وعن أبي يوسف أنه يعتبر أكثر الحول اه.
وبه يظهر ما في كلام المؤلف من الإيجاز المخل حيث أرجع ضمير، وعنه إلى محمد مع أنه راجع إلى أبي يوسف۔

الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الزکاۃ، 258/2، ط: دار الفکر)
(وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا
(قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها، وإيجاب النفقات والغرامات لكونها من حقوق العباد والعشر، وصدقة الفطر لأن فيهما معنى المؤنة. ولا خلاف أنه في المجنون الأصلي يعتبر ابتداء الحول من وقت إفاقته كوقت بلوغه. أما العارضي، فإن استوعب كل الحول فكذلك في ظاهر الرواية وهو قول محمد ورواية عن الثاني وهو الأصح وإن لم يستوعبه لغا وعن الثاني: أنه يعتبر في وجوبها إفاقة أكثر الحول نهر ولم يذكر المعتوه هنا. والظاهر أن فيه هذا التفصيل وأنه لا تجب عليه في حال العته، لما علمت من أن حكمه كالصبي العاقل فلا تلزمه لأنها عبادة محضة كما علمت إلا إذا لم يستوعب الحول لأن الجنون يلغو معه فالعته بالأولى.

و فیھا ایضاً: (کتاب الحجر، 145/6، ط: دار الفکر)
(وسببه صغر وجنون) يعم القوي والضعيف كما في المعتوه وحكمه كمميز كما سيجيء في المأذون۔۔۔ وأما الذي يجن ويفيق فحكمه كمميز نهاية
(ومن عقد) عقدا يدور بين نفع وضر كما سيجيء في المأذون (منهم) من هؤلاء المحجورين (وهو يعقله) يعرف أن البيع سالب للملك والشراء جالب (أجاز وإليه، أو رد) وإن لم يعقله فباطل نهاية.
(قوله: يعم القوي والضعيف) ۔۔۔ واختلفوا في تفسير المعتوه وأحسن ما قيل فيه هو من كان قليل الفهم مختلط الكلام فاسد التدبير إلا أنه لا يضرب ولا يشتم كما يفعل المجنون درر. (قوله: وحكمه كمميز) أي حكم المعتوه كالصبي العاقل في تصرفاته وفي رفع التكليف عنه زيلعي.
(قوله: أجاز وليه) أي إن لم يكن فيه غبن فاحش۔

و فیھا ایضاً: (کتاب الماذون، 174/6، ط: دار الفکر)
(ووليه أبوه ثم وصيه) بعد موته ثم وصي وصيه كما في القهستاني عن العمادية (ثم) بعدهم (جده) الصحيح وإن علا (ثم وصيه) ثم وصي وصيه قهستاني زاد القهستاني والزيلعي ثم الوالي بالطريق الأولى (ثم القاضي أو وصيه) أيهما تصرف يصح فلذا لم يصح ثم (دون الأم أو وصيها) هذا في المال بخلاف النکاح۔
(قوله ووليه أبوه) أي الصبي. وفي الهندية: والمعتوه الذي يعقل البيع يأذن له الأب الوصي والجد دون الأخ والعم وحكمه حكم الصبی۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 569 Dec 17, 2021
zaeef / burhape / old age hone / honey ki waja se / say zahol or nisyan / nasyan wali mariza / patient ke / kay maal me / mein zakat or degar tasarufat ke / kay ehkaam

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.