سوال:
میرے دادا کے سب سے بڑے بیٹے نے ایک مکان خرید کر دادا کے نام کر دیا تھا، اس مکان پر باقی تین بیٹوں نے پیسے لگا کر دو منزلہ بنادیا، اب موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دادا اور سب سے بڑے بیٹے کا انتقال ہوچکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس گھر کی وراثتی تقسیم کس طرح ہوگی؟ کیا دادا کے تمام وارثین میں یہ گھر تقسیم ہوگا یا بڑے بیٹے نے چونکہ خریدا تھا، تو ان کے بچوں کا ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص زندگی میں اپنی زمین کسی شخص کے نام کر دے، اور زمین کا تصرف یا قبضہ نہ دے، تو محض نام کرنے کی وجہ سے وہ شخص شرعی طور پر اس زمین کا مالک نہیں ہوتا، بلکہ وہ زمین بدستور ہبہ کرنے والے شخص کی ہی ملکیت شمار ہوتی ہے، ہبہ تام (مکمل) ہونے کے لیے زمین پر قبضہ دینا ضروری ہے۔
لہذا ذکر کردہ صورت میں اگر بڑے بیٹے نے والد کے نام مکان کرنے کے ساتھ ساتھ اس مکان کو والد کے قبضے اور تصرف میں دے دیا تھا، تو یہ مکان شرعی طور پر والد کا تصور کیا جائے گا، اور والد کے انتقال کے بعد والد کے تمام شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا، اور اگر بیٹے نے قبضہ نہیں دیا تھا، تو مکان بڑے بیٹے کی ہی ملکیت شمار ہوگا اور بڑے بیٹے کے صرف شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
یاد رہے کہ اگر بھائیوں نے گھر کی تعمیر وغیرہ میں اپنی ذاتی رقم لگائی، اور یہ رقم مکان کی تعمیر میں تعاون کرنے کے لیے بطورِ ہدیہ (گفٹ) لگائی ہے، تو ایسی صورت میں یہ مکان مذکورہ قاعدہ کے مطابق پورا والد یا بھائی کی ملکیت شمار ہوگا، اور میراث کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
اور اگر بھائیوں نے وہ رقم قرض کے طور پر لگائی تھی، تو بھائیوں کو قرض کی رقم واپس لینے کا حق حاصل ہوگا۔
لیکن اگر انہوں نے پیسہ لگاتے وقت کوئی وضاحت نہیں کی تھی، (نہ ہدیہ کی، نہ قرض کی) تو ایسی صورت میں ان کے لگائے ہوئے پیسے ہدیہ (گفٹ) سمجھے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (689/5، ط: دار الفکر)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
الفتاوی الھندیۃ: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا في الفصول العمادية.
تنقيح الفتاوى الحامدية: (155/2، ط: دار المعرفہ)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا ه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی